عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «مَنْ احْتَبَسَ فَرَسًا في سَبِيل الله، إيمانًا بالله، وتَصْدِيقًا بِوَعْدِه، فإن شِبَعَهُ وريَّه ورَوْثَهُ وبَوْلَه في مِيْزَانه يوم القيامة».
[صحيح] - [رواه البخاري]
المزيــد ...
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے اور اس کے وعدے کو سچا مانتے ہوئے اللہ کے راستے میں گھوڑا پالتا ہے، اس کا کھانا،اس کا پینا، اس کی لید اور پیشاب قیامت کے دن اس کے پلڑے میں ہوں گے“۔
[صحیح] - [اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
حدیث کا معنی: جس نے اللہ کے راستے میں اور اس کی رضا کے حصول کے لیے جہاد کی خاطر گھوڑا وقف کیا، تاکہ اس پر سوار ہو کر مجاہدین جہاد کر سکیں؛ اگر اس کا یہ کام سچ مچ اللہ کی رضا کے حصول اور اس کی طرف سے کیے گئے وعدے کی تصدیق کے طور پر ہے، مثلا قرآنِ کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ﴾ ”تم جو کچھ بھی اللہ کی راه میں صرف کرو گے، وه تمھیں پورا پورا دیا جائے گا“، تو اللہ تعالیٰ اس گھوڑے کے کھانے، پینے اور بول و براز تک کا اجر اسے عنایت کرے گا کہ ان تمام چیزوں کو قیامت کے دن اس کی نیکیوں کے پلڑے میں رکھا جاۓ گا۔ ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث میں ہے: ”گھوڑے کی تین اقسام ہیں؛ ایک مالک پر وبال ہے، دوسرا مالک کے لیے پردہ ہے، تیسرا مالک کے لیے ثواب کا ذریعہ ہے...پھر فرمایا باعث ثواب وہ گھوڑا ہے، جسے آدمی نے اللہ کے راستے میں، اہل اسلام کے لیے سبزہ زار یا باغ میں وقف کر رکھا ہو۔ تو یہ گھوڑا باغ یا سبزہ زار سے جو کچھ کھاۓ گا، اس کے کھانے کے بقدر اس کے لیے نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کی لید اور پیشاب کی مقدار کے برابر نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ اگر وہ اپنی لمبی رسی توڑ کر ایک یا دو ٹیلوں پر چڑھ جاۓ، تو اس کے قدموں کے نشانات اور لید کے برابر نیکیاں اللہ لکھ دیتا ہے، جب اس کا مالک اسے کسی نہر سے لے کر گزرتا ہے اور پانی پلانے کا ارادہ نہ ہونے کے باوجود وہ پانی پی لیتا ہے، تو اللہ اس کے لیے پیے گئے پانی کے قطروں کی تعداد کے برابر نیکیاں لکھ دیتا ہے“۔ متفق علیہ