عن أبي موسى الأشعري رضي الله عنه أَنَّهُ تَوَضَّأ في بيتِهِ، ثُمَّ خَرَج، فقَال: لَأَلْزَمَنَّ رسُول الله صلى الله عليه وسلم ولَأَكُونَنَّ مَعَهُ يَومِي هَذَا، فَجَاءَ الْمَسْجِدَ، فَسَألَ عَنِ النبيِّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- فَقَالُوا وَجَّهَ هَاهُنَا، قال: فَخَرَجْتُ عَلَى أَثَرِهِ أَسأَلُ عنْهُ، حتَّى دخَلَ بِئْرَ أَرِيسٍ، فَجَلَستُ عِندَ البَابِ حتَّى قَضَى رسُولُ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- حَاجَتَهُ وَتَوَضَّأ، فَقُمتُ إِلَيهِ، فَإِذَا هُوَ قَدْ جَلَسَ عَلَى بِئْرِ أَرِيسٍ وَتَوَسَّطَ قُفَّهَا، وكَشَفَ عَنْ سَاقَيهِ وَدلَّاهُمَا فِي البِئرِ، فَسَلَّمتُ علَيه ثُمَّ انْصَرَفْتُ، فَجَلَسْتُ عِند البَابِ، فقُلتُ: لأَكُونَنَّ بَوَّابَ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- اليَومَ، فجَاءَ أَبُو بَكر -رضِيَ الله عنْهُ- فَدَفَعَ البَابَ، فقُلتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ، فقُلتُ: عَلَى رِسْلِكَ، ثُمَّ ذَهَبتُ، فَقُلْتُ: يَا رسُولَ الله، هَذَا أبُو بكرٍ يَسْتَأذِنُ، فقَالَ: «ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالجَنَّةِ» فَأَقْبَلْتُ حتَّى قُلتُ لَأَبِي بَكْرٍ: ادْخُلْ وَرَسُولُ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- يُبَشِّرُكَ بِالْجَنَّةِ، فَدَخَلَ أَبُو بَكرٍ حَتَّى جَلَسَ عَن يَمِينِ النبيِّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- مَعَهُ فِي القُفِّ، ودَلَّى رِجْلَيهِ فِي البِئْرِ كَمَا صَنَعَ رَسُولُ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- وَكَشَفَ عَنْ سَاقَيهِ، ثُمَّ رَجَعْتُ وَجَلَسْتُ، وَقَدْ تَرَكْتُ أَخِي يَتَوَضَّأ وَيَلْحَقُنِي، فَقُلْتُ: إِنْ يُرِدِ اللهُ بِفُلاَنٍ - يُريِدُ أَخَاهُ - خَيرًا يَأتِ بِهِ، فَإِذَا إِنسَانٌ يُحَرِّكُ البَّابَ، فقُلتُ: مَنْ هَذَا؟ فقَالَ: عُمَرُ بن الخَطَّابِ، فقُلتُ: عَلَى رِسْلِكَ، ثُمَّ جِئْتُ إِلَى رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- فَسَلَّمْتُ عَلَيهِ وقُلْتُ: هَذَا عُمَرُ يَسْتَأْذِنُ؟ فَقَال: «ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالجَنَّةِ» فَجِئْتُ عُمَرَ، فَقُلتُ: أَذِنَ وَيُبَشِّرُكَ رَسُولُ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- بِالجَنَّةِ، فَدَخَلَ فَجَلَسَ مَعَ رسُولِ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- فِي القُفِّ عَنْ يَسَارِهِ وَدَلَّى رِجْلَيهِ فِي البِئْرِ، ثُمَّ رَجَعْتُ فَجَلَسْتُ، فَقُلتُ: إِن يُرِدِ اللهُ بِفُلاَنٍ خَيرًا -يعنِي أَخَاهُ- يَأتِ بِهِ، فَجَاءَ إِنسَانٌ فَحَرَّكَ البَابَ، فقُلتُ: مَنْ هَذَا؟ فقَالَ: عُثمَانُ بنُ عَفَّان، فقُلتُ: عَلَى رِسْلِكَ، وَجِئتُ النبِيَّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- فَأَخبَرتُهُ، فقَالَ: «ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرهُ بِالجَنَّةِ مَعَ بَلوَى تُصِيبُهُ» فَجِئتُ، فقُلتُ: ادْخُل وَيُبَشِّرُكَ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- بِالجَنَّةِ مَعَ بَلوَى تُصِيبُكَ، فَدَخَلَ فَوَجَدَ القُفَّ قَدْ مُلِئَ، فَجَلَسَ وِجَاهَهُم مِنَ الشِقِّ الآخَرِ.
قال سعيد بنُ الْمُسَيِّبِ: فَأَوَّلْتُهَا قُبُورَهُم.
وزاد في رواية: وَأَمَرَنِي رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- بِحفظِ البابِ، وفيها: أنَّ عُثمَانَ حِينَ بَشَّرَهُ حَمِدَ الله -تَعَالَى-، ثُمَّ قَالَ: اللهُ الْمُسْتَعَانُ.
[صحيح] - [الرواية الأولى:
متفق عليها:
البخاري: (ج5/8، ح3674) واللفظ له (ج5/13، ح3695) (ج9/54، ح7097).
مسلم: (ج4/1868، ح2403).
الرواية الثانية:
الزيادة الأولى: "وَأَمَرَنِي رسُول الله صلَّى الله عليه وسلَّم بِحفظِ البابِ" أخرجها البخاري في صحيحه: (ج9/89، ح7262).
وأما الزيادة الثانية: "أنَّ عُثمَانَ حِينَ بَشَّرَهُ حَمِدَ الله تَعَالَى، ثُمَّ قَالَ: اللهُ الْمُسْتَعَانُ"، فقد أخرجها البخاري أيضا: (ج8/48، ح6216)]
المزيــد ...
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے گھر میں وضو کیا اور جب باہر آئے، تو ارادہ کیا کہ آج دن بھر رسول اللہ ﷺکا ساتھ نہ چھوڑوں گا اور آپ ﷺ کے ساتھ رہوں گا۔ چنانچہ وہ مسجد میں آئے اور نبی ﷺ کے بارے میں پوچھا، تو لوگوں نے بتایا کہ آپ ﷺ اس طرف تشریف لے گئے ہیں۔ ابوموسی اشعری کہتے ہیں: میں آپ کے متعلق پوچھتا ہوا آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑا، حتی کہ (میں نے دیکھا کہ) آپ ﷺ بئر اریس میں داخل ہوگئے ہیں۔ میں دروازے پر بیٹھ گیا۔ جب آپ ﷺ قضاے حاجت کر چکے اور آپ ﷺ نے وضو بھی کر لیا، تو میں آپﷺ کی طرف گیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ بئر اریس کی منڈیر پر بیٹھے ہوئے ہیں، اپنی پنڈلیاں کھول رکھی ہیں اور انھیں کنویں میں لٹکایا ہوا ہے۔ میں نے آپ ﷺ کو سلام کیا اور پھر واپس آ کر باغ کے دروازے پر بیٹھ گیا۔ میں نے سوچا کہ آج رسول اللہ ﷺ کے دربان کی ذمہ داری سر انجام دوں گا۔ کچھ دیر کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور انھوں نے دروازے کو دھکیلا تو میں نے پوچھا کہ کون صاحب ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ ابوبکر!۔ میں نے کہا: ذراٹھہریے۔ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ ابوبکر دروازے پر موجود ہیں اور اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ انھیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی۔ میں نے آ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اندر تشریف لے جائیے اور رسول اللہ ﷺ نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر داخل ہوئے اور اسی کنویں کی منڈیر پر نبی ﷺ کی داہنی طرف بیٹھ گئے اور اپنے دونوں پاؤں ویسے ہی کنویں میں لٹکالیے، جس طرح رسول اللہ لٹکائے ہوئے تھے اور اپنی پنڈلیوں کو بھی کھول لیا۔ میں واپس آ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ میں آتے وقت اپنے بھائی کو وضو کرتا ہوا چھوڑ آیا تھا۔ جو میرےپیچھے ہی آ رہا تھا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ کاش اللہ فلاں( یعنی ان کے بھائی) کے ساتھ خیر کا ارادہ کر لے اور اسے یہاں تک لے آئے۔ اتنے میں کسی صاحب نے دروازہ پر دستک دی میں نے پوچھا کون ہیں؟ جواب ملا کہ عمر بن خطاب۔میں نے کہا کہ تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر جائیے۔ میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کے بعد عرض کیا کہ عمر بن خطاب دروازے پر کھڑے ہیں اوراندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ انھیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی پہنچا دو۔ میں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور انھیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اجازت دے دی ہے اور ساتھ ہی آپ ﷺ نے آپ کو جنت کی بشارت بھی دی ہے۔ چنانچہ وہ اندر آئے اور آپ ﷺ کے ساتھ اسی منڈیر پر بائیں طرف بیٹھ گئے اور اپنے پاؤں کنویں میں لٹکالیے۔ میں پھر دروازے پر آ بیٹھا اور دل میں سوچا کہ کاش اللہ فلاں (یعنی ان کے بھائی) کے ساتھ خیر کا ارادہ کرلے تو اسے یہاں لے آئے۔ اتنے میں ایک اور صاحب آئے اور دروازے پر دستک دی۔ میں نے پوچھا کون ہیں؟ بولے کہ عثمان بن عفان۔ میں نے کہا: تھوڑی دیر کے لیے رک جائیے۔ میں آپ ﷺ کے پاس آیا اور آپ ﷺ کو اطلاع دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ انھیں اجازت دے دو اور انھیں جنت کی بشارت کے ساتھ ساتھ اس آزمائش کے بارے میں بھی بتا دو، جو ان پر آئے گی۔ میں دروازے پر آیا اور میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے جائیے اور رسول اللہ ﷺ نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہےاور ساتھ ہی ایک آزمائش کے بارے میں بھی بتایا ہے، جو آپ پر آئے گی۔ وہ جب داخل ہوئے، تو دیکھا منڈیر پر جگہ نہیں ہے، اس لیے وہ دوسری جانب ان کے سامنے بیٹھ گئے۔ سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اس سے ان کی قبروں کی تاویل لی ہے (کہ وہ اسی طرح بنیں گی)۔
ایک اور روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ: "اور رسول اللہ ﷺ نے مجھے دروازے کی نگہبانی پر مامور فرمایا"۔ اسی روایت میں یہ بھی ہے کہ: "جب انھوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو بشارت دی، تو انھوں نے اللہ کی حمد بیان کی اور کہا: اللہ ہی وہ ذات ہے، جس سے مدد مانگی جا سکتی ہے"۔
[صحیح] - [اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس بات کا بیان ہےکہ ایک دن انھوں نے گھر میں وضو کیا اور نبی ﷺ کی تلاش میں نکل پڑے۔ انھوں نے دل میں سوچا کہ میں آج رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہوں گا۔ یعنی آپ ﷺ جہاں بھی آئیں جائیں گے، میں آپ ﷺ کے ساتھ ہی رہوں گا۔ چنانچہ وہ نبی ﷺ کی تلاش میں نکلے اور مسجد آ پہنچے، کیوںکہ آپ ﷺ یا تو مسجد میں ہوتے یا اپنے گھر میں اہل خانہ کا کام کاج کر رہے ہوتے یا پھر اپنے صحابہ کے کاموں میں مصروف ہوتے۔ جب مسجد میں انھیں آپ ﷺ نہ ملے، تو انھوں نے آپ ﷺ کے بارےمیں دریافت کیا۔ لوگوں نے "اریس "کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ آپ ﷺ اس جانب تشریف لے گئے ہیں۔ یہ قبا کے گرد ونواح میں واقع ایک کنواں ہے۔ چنانچہ ابو موسی آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے کنویں تک پہنچ گئے۔ انھیں وہاں نبی ﷺ مل گئے اور وہ اس باغ کے دروازے پربیٹھ گئے، جس میں کنواں واقع تھا۔ رضی اللہ عنہ۔ نبی ﷺ نے قضاے حاجت کے بعد وضو فرمایا اور پھر کنویں کی منڈیر یعنی کنویں کے کنارے کے درمیان میں بیٹھ گئے اور پنڈلیوں کو کھول کر اپنے پاؤں اس میں لٹکالیے۔ ابو موسی رضی اللہ عنہ کنویں کے دروازے پر رسول اللہ ﷺ کے پہرے دار کے طور پر موجود تھے۔ ایسے میں ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت چاہی، لیکن ابو موسی رضی اللہ عنہ نے انھیں تب تک اجازت نہیں دی، جب تک انھوں نے نبی ﷺ کو نہ بتا دیا کہ ابوبکر اجازت طلب کر رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "انھیں آنے کی اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی "۔ چنانچہ انھوں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اجازت دے دی اور ساتھ ہی انہھیں بتایا کہ آپ کو رسول اللہ ﷺ جنت کی بشارت دے رہے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی خوشخبری تھی۔ ابوموسی رضی اللہ عنہ نے انھیں بشارت بھی دی اور اندر آنے کی اجازت بھی، تا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہو جائیں۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ اندر تشریف لائے اور دیکھا کہ نبی ﷺ منڈیر کے درمیان میں تشریف فرما ہیں۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے دائیں طرف بیٹھ گئے اور انھوں نے ویسا ہی کیا، جیسا آپ ﷺ نے کر رکھا تھا کہ اپنے پاؤں کنویں میں لٹکا لیے اور اپنی پنڈلیاں کھول لیں؛ کیوںکہ انھيں یہ گوارا نہ تھا کہ بیٹھنے کی اس ہیئت میں وہ نبی ﷺ کی مخالفت کریں۔ ابو موسی رضی اللہ عنہ جب (آپ ﷺ کی تلاش میں) نکلے تھے، تو ان کا بھائی وضو کر رہا تھا اور اسے ان کے پیچھے ہی آنا تھا۔ انھوں نے سوچا کہ اگر اللہ ان کے بھائی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتے ہوئے اسے بھی یہاں تک لے آئے، تو بہت اچھا ہوگا۔ تاکہ آنے پر وہ بھی اجازت طلب کرے اور اسے بھی جنت کی بشارت مل جائے۔ لیکن (ان کی بجائے) کسی اور شخص نے اجازت چاہی۔ ابو موسی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور بتایا کہ عمر رضی اللہ عنہ آئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "انھیں اجازت دے دو اور ساتھ ہی انھیں جنت کی بشارت بھی سنا دو"۔ چنانچہ ابو موسی رضی اللہ عنہ نے انھیں داخلےکی اجازت دے دی اور انھیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ آپ کو جنت کی بشارت دے رہے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ اندار داخل ہوئے اور دیکھا کہ نبی ﷺ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ منڈیر پر بیٹھے ہیں۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے بائیں جانب بیٹھ گئے۔ کنواں تنگ تھا اور اتنا کھلا نہیں تھا۔ یہ تینوں ایک طرف تشریف فرما تھے۔ اس کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت چاہی، تو ابو موسی رضی اللہ عنہ نے ویسا ہی کیا، جیسا پہلے اجازت مانگے جانے پر کیاتھا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”انھیں اجازت دے دو، انھیں جنت کی بشارت کے ساتھ ساتھ ایک آزمائش کے بارے میں بھی بتا دو، جو ان پر آنے والی ہے“۔ چنانچہ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے انھیں اجازت دے دی اور بتایا کہ رسول اللہ ﷺ آپ کو جنت کی بشارت دے رہے ہیں اور ایک آزمائش کے بارے میں بھی بتا رہے ہیں، جو آپ پر آنے والی ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ کے لیےنعمت اور آزمائش دونوں اکٹھی تھیں۔ اس پر عثمان رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ”الحمدللہ، اس آزمائش پر اللہ ہی سے مدد طلب کی جا سکتی ہے اور اس بشارت پر میں اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتا ہوں“۔ جب اندر داخل ہوئے، تو دیکھا کہ منڈیر بھری ہوئی ہے، کیوںکہ وہ زیادہ کشادہ نہیں تھی۔ چنانچہ وہ ان کے سامنے دوسری طرف چلے گئے اور اس پر بیٹھ کر اپنے پاؤں لٹکا لیے اور پنڈلیوں کو کھول لیا۔ سعید بن مسیب رحمہ اللہ جو جلیل القدر تابعین میں سے ہیں، اس سے یہ تاویل لیتے ہیں کہ ان کی قبریں اس طرح سے ہوں گی؛ کیوںکہ ان تینوں کی قبریں ایک ہی جگہ پر تھیں۔ نبی ﷺ، ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما سب ایک حجرے میں تھے اور سب ایک ہی جگہ دفن ہوئے۔ دنیا میں یہ لوگ (جہا ں بھی آتے جاتے) اکٹھے آتے جاتے۔ نبی ﷺ ہمیشہ کہا کرتے تھے: ”میں، ابو بکر اور عمر گئے۔ میں، ابو بکر اور عمر آئے“۔ یہ دونوں آپ ﷺ کے ساتھی اور وزیر تھے اور روزِ قیامت اپنی قبروں سے بھی یہ اکٹھے ہی اٹھیں گے۔ چنانچہ یہ دنیا اور آخرت میں ایک ساتھ رہیں گے۔ عثمان رضی اللہ عنہ ان کے سامنے بیٹھ گے۔ نبی ﷺ نے انھیں جنت کی بشارت کے ساتھ ساتھ انھیں پیش آنے والی ایک آزمائش کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔ یہ آزمائش وہی تھی، جس میں لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اختلاف کے شکار ہو کر آپ رضی اللہ عنہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئےاور آپ کے گھر میں آپ کو شہید کر دیا۔ لوگ مدینے میں واقع ان کے گھر میں گھس آئے۔ قرآن کریم عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے تھا اور وہ اس کی تلاوت کر رہے تھے۔ اسی حالت میں ان لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا۔