عن أبي جَمرة -نصر بن عمران الضُّبَعي- قال: «سألت ابن عباس عن المُتْعَةِ؟ فأمرني بها، وسألته عن الهَدْيِ؟ فقال: فيه جَزُورُ، أو بقرةٌ، أو شَاةٌ، أو شِرْكٌ في دم، قال: وكان ناس كرهوها، فنمت، فرأيت في المنام: كأن إنسانا ينادي: حَجٌّ مَبْرُورٌ، ومُتْعَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ. فأتيت ابن عباس فحدثته، فقال: الله أكبر! سُنَّةُ أبي القاسم صلى الله عليه وسلم ».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
ابوجمرہ نصر بن عمران الضبعی بیان کرتے ہیں کہ میں نےابن عباس رضی اللہ عنہما سے تمتع کے بارے میں پوچھا تو آپ نے مجھے اس کے کرنے کا حکم دیا، پھر میں نے قربانی کے متعلق پوچھا؟ آپ نے فرمایا کہ تمتع میں ایک اونٹ، یا ایک گائے یا ایک بکری (کی قربانی واجب ہے ) یا کسی (اونٹ، یا گائے کی) قربانی میں شریک ہو جائے۔ ابوجمرہ نے کہا کہ بعض لوگ حجِ تمتع کو ناپسندیدہ قرار دیتے تھے۔پھر میں سویا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص پکار رہا ہے:یہ حج مبرور ہے اور یہ مقبول تمتع ہے۔ چنانچہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے خواب کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا : ”اللہ اکبر ! یہ تو ابوالقاسم ﷺ کی سنت ہے“۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
ابو جمرہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے عمرہ کے ساتھ حج (حجِ تمتع کرنے) کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے ایسا کرنے کا حکم دیا۔ پھر ان سے قربانی کے بارے میں سوال کیا گیا جو کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں حکم موجو د ہے: {فمن تمتع بالعمرة إلى الحج فما استيسر من الهدي} ’’پس جو شخص عمرے سے لے کر حج تک تمتع کرے پس اسے جو قربانی میسر ہو اسے کر ڈالے‘‘۔تو انھوں نے بتایا کہ اونٹ کی قربانی سب سے افضل ہے پھر اس کے بعد گائے، پھر بکری یا پھر اونٹ یا گائے میں سات افراد کی شراکت۔یعنی سات افراد ایک قربانی یا ہدی میں شریک ہوجائیں۔ ان میں سے ایک شخص کو ابو حمزہ کے تمتع پر اعتراض تھا۔ انھوں نے خواب میں ایک منادی لگانے والے کو دیکھا کہ وہ یہ کہہ رہا تھا "حج مبرور، ومتعۃ متقبلة" (حج مبرور ،تمتع قبول) تو وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تاکہ ان کو یہ خوبصورت خواب بتائیں کیوں کہ اچھا خواب نبوت کے حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما خوش ہو گیے اور یہ خوشخبری دی کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں درست کام کی توفیق عطا فرمائی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا: ”اللہ اکبر ! یہ ابو القاسم ﷺ کی سنت ہے“۔