عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعاً: «يقول اللهُ: إذا أراد عبدي أنْ يعملَ سيئةً، فلا تكتبوها عليه حتى يعملَها، فإنْ عَمِلها فاكتبوها بمثلِها، وإنْ تركها مِن أجلي فاكتبوها له حسنةً، وإذا أراد أنْ يعملَ حسنةً فلم يعملها فاكتبوها له حسنةً، فإنْ عملها فاكتبوها له بعشر أمثالها إلى سبعِ مائة ضِعْفٍ».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالی فرماتا ہے: جب میرا بندہ کسی برائی کے ارتکاب کا ارادہ کرے تو اسے اس وقت تک نہ لکھو جب تک کہ وہ اس کا ارتکاب نہ کر لے۔ اگر وہ اسے کر لے تو اسے ایک ہی برائی لکھو اور اگر وہ اسے میری وجہ سے چھوڑ دے تو اسے اس کے لیے ایک نیکی لکھ دو۔ اور اگر وہ کوئی نیکی کرنے کا ارادہ کرے لیکن اسے کر نہ سکے تو اسے اس کے لیے ایک نیکی لکھ دو۔ اگر وہ اسے کر لے تو پھر اسے اس کے لیے دس سے سات سو گنا تک نیکیاں لکھ دو“۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
اللہ تعالی کا یہ ارشاد ان فرشتوں سے ہے جو انسان کے اعمال کو محفوظ کرنے اور ان کے لکھنے پر متعین ہیں۔ اس میں انسان پر اللہ کے فضل اور اللہ کی طرف سے اس سے درگزر کرنے کی دلیل ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان: ”جب میرا بندہ کوئی برائی کرنے کا ارادہ کرے تو اسے اس وقت تک نہ لکھو جب تک کہ وہ اس کا ارتکاب نہ کر لے۔“ عمل سے کبھی دل اور اعضاء کاعمل مراد ہوتا ہے اور یہی معنی راجح ہے۔ کیونکہ ا س بات کی دلیل موجود ہے کہ دل کے عمل پر مواخذہ ہو گا اور اس پر انسان کو جزا ملے گی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ﴾ ”جو بھی ظلم کے ساتھ وہاں الحاد کا اراده کرے ہم اسے درد ناک عذاب چکھائیں گے“۔ اور صحیح حدیث میں آیا ہے: ”جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ (لڑنے کے لئے) ایک دوسرے کے آمنے سامنے آئیں تو قاتل و مقتول دونوں جہنم میں ہیں“۔ لوگوں نے یہ دریافت کیا کہ يہ تو قاتل ہے، ليكن مقتول کا کیا قصور ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ بھی اپنے بھائی کو قتل کرنا چاہتا تھا۔“ ان نصوص کے ذریعہ اللہ تعالی کے اس قول کے عموم کی تخصیص کرنا درست ہے: ”جب وہ کسی برائی کا ارادہ کرے تو اسے اس وقت تک نہ لکھو جب تک کہ وہ اس کا ارتکاب نہ کر لے۔“ یہ تخصیص برائی کے بارے میں اللہ کے اس قول کے مخالف نہیں کہ ”اسے اس کے کھاتے میں نہ لکھو۔“ کیونکہ دل کا پکا اور مصمم ارادہ کر لینا ایک عمل ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ”اگر وہ اسے کر لے تو اسے اسی کے مثل لکھو“۔ یعنی ایک برائی (لکھو)۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿مَن جَاء بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَن جَاء بِالسَّيِّئَةِ فَلاَ يُجْزَى إِلاَّ مِثْلَهَا وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ﴾ ”جو شخص نیک کام کرے گا اس کو اس کے دس گنا ملیں گے اور جو شخص برا کام کرے گا اس کو اس کے برابر ہی سزا ملے گی اور ان لوگوں پر ظلم نہ ہوگا“۔ اور فرمایا: ﴿مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلا يُجْزَى إِلاَّ مِثْلَهَا وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُوْلَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ ”جس نے گناه کیا ہے اسے تو برابر برابر کا بدلہ ديا جائے گا اور جس نے نیکی کی ہے خواه وه مرد ہو یا عورت اور وه ایمان والا ہو تو یہ لوگ جنت میں جائیں گے اور وہاں بےشمار روزی پائیں گے“۔ الله تعالی کا قول: ”اگر وہ میرے لیے اس برائی کو چھوڑ دے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دو“۔ اس کے چھوڑنے کو اللہ کی خاطر چھوڑنے سے مشروط کیا گیا ہے، یعنی اگر وہ اللہ کے خوف سے اور اس سے حیا کی وجہ سے چھوڑ دے۔ تاہم اگر وہ اس سے عاجز آنے کی وجہ سے چھوڑ ے یا پھر مخلوق کے خوف کے وجہ سے یا کسی اور عارض کی وجہ سے ترک کرے تو اس صورت میں اس کے لیے نیکی نہیں لکھی جاتی بلکہ بسا اوقات برائی لکھی جاتی ہے۔ اللہ تعالی کا یہ قول: اور اگر وہ کسی نیکی کا اراده کرے لیکن اسے کر نہ سکے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دو اگر وہ اسے کر لے تو پھر اس کے لیے دس سے سات سو گنا تک نیکیاں لکھ دو۔ یہ اللہ کی کریم ذات کا اپنے بندوں پر فضل ہے جو بہت زیادہ احسان کرنے والا ہے۔ تمام تعریفیں اور تمام احسانات اللہ ہی کے لیے ہیں۔ اس سے بڑی کرم نوازی اور کیا ہو سکتی ہے کہ نیکی کے ارادے کو پوری نیکی لکھ دیا جائے اور نیکی کرنے کو دس سے سات سو گنا تک بڑھا کر لکھا جائے۔ اس حدیث میں نبی کريم ﷺ نے اس بات کو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمايا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جب میرا بندہ ارادہ کرے۔ آپ ﷺ نے یہ بیان کیا ہے کہ یہ اللہ کا فرمان ہے۔ اللہ کا یہ قول اس کی شریعت ہی کا حصہ ہے جس میں اس کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے وعدہ اور ان پر اس كے فضل و کرم کا بیان ہے۔ اور یہ قرآن کے علاوہ ہے اور یہ مخلوق نھیں ہے۔ پس اللہ تعالی کا قول اس کی مخلوق کے علاوہ ہے۔ (یعنی اللہ کا کلام مخلوق نہیں ہے)