+ -

عن أيوب، عن أبي قلابة، عن عمرو بن سَلِمة، قال -أي أيوب-: قال لي أبو قلابة: ألا تلقاه فتسأله؟ -أي تسأل عمرو بن سلمة- قال فلقيته فسألته فقال: كنا بماء ممر الناس، وكان يمرُّ بنا الرُّكبان فنسألهم: ما للناس، ما للناس؟ ما هذا الرجل؟ فيقولون: يزعم أن الله أرسله، أوحى إليه، أو: أوحى الله بكذا، فكنتُ أحفظ ذلك الكلام، وكأنما يَقَرُّ في صدري، وكانت العرب تَلَوَّم بإسلامهم الفتح، فيقولون: اتركوه وقومه، فإنه إن ظهر عليهم فهو نبي صادق، فلما كانت وقعة أهل الفتح، بادَر كلُّ قوم بإسلامهم، وبَدَر أبي قومي بإسلامهم، فلما قدم قال: جئتكم والله من عند النبي صلى الله عليه وسلم حقا، فقال: «صَلُّوا صلاة كذا في حين كذا، وصَلُّوا صلاة كذا في حين كذا، فإذا حضرت الصلاة فليؤذِّن أحدكم، وليَؤمَّكم أكثركم قرآنا». فنظروا فلم يكن أحد أكثر قرآنا مني، لما كنت أتلقى من الرُّكبان، فقدَّموني بين أيديهم، وأنا ابن ست أو سبع سنين، وكانت علي بُرْدة، كنت إذا سجدت تَقَلَّصت عني، فقالت امرأة من الحي: ألا تُغَطُّوا عنا اسْتَ قارئكم؟ فاشتروا فقطعوا لي قميصا، فما فرحتُ بشيء فرحي بذلك القميص.
[صحيح] - [رواه البخاري]
المزيــد ...

ایوب، ابوقلابہ سے اور ابوقلابہ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں؛ ایوب نے کہا کہ مجھ سے ابوقلابہ نے کہا: عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ قصہ کیوں نہیں پوچھ لیتے؟ ابوقلابہ نے کہا کہ پھر میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے (یہ واقعہ) پوچھا، تو انھوں نے بتایا کہ جاہلیت میں ہمارا قیام ایک چشمے پر تھا، جہاں عام راستہ تھا۔ قافلے ہمارے قریب سے گزرتے، تو ہم ان سے پوچھتے کہ لوگوں کا کیا خیال ہے؟ اس شخص کا کیا معاملہ ہے ؟ (یہ اشارہ نبی کریم ﷺ کی طرف ہوتا تھا) لوگ بتاتے کہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے انھیں اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور ان پر وحی نازل کیا ہے یا اللہ نے ان پر یہ آیت اتاری ہے۔ چنانچہ میں فوراً اسے یاد کر لیتا۔ ان کی باتیں میرے دل پر اثر کرتی تھیں۔ ادھر سارے عرب والے فتح مکہ پر اپنے اسلام کو موقوف کیے ہوئے تھے؛ ان کا کہنا تھا کہ اس نبی کو اور اس کی قوم (قریش) کو نمٹنے دو ، اگر وہ ان پر غالب آ گئے، تو واقعی وہ سچے نبی ہیں۔ چنانچہ جب مکہ فتح ہو گیا، تو (عرب کی) قومیں اسلام لانے میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے لگیں۔ میرے والد نے بھی اسلام قبول کرنے کے معاملے میں اپنی قوم پر سبقت کی۔ پھر جب (مدینے) سے واپس آئے تو (لوگوں سے) کہا: اللہ کی قسم! میں ایک سچے نبی کے پاس سے آ رہا ہوں۔ انھوں نے فرمایا ہے: فلاں نماز فلاں وقت پڑھا کرو ، فلاں نماز فلاں وقت پڑھا کرو اور جب نماز کا وقت ہو جائے، تو تم میں سے کوئی ایک شخص اذان دے اور جسے سب سے زیادہ قرآن یاد ہو، وہ امامت کرے۔ لوگوں نے غور و خوض کیا، تو قبیلے میں کوئي مجھ سے زیادہ قرآن یاد کرنے والا نہیں ملا؛ کیوں کہ میں آنے جانے والے قافلوں سے سن کر قرآن مجید یاد کر لیا کرتا تھا۔ چنانچہ مجھے لوگوں نے امام بنادیا ، حالاں کہ اس وقت میری عمر چھ یا سات سال تھی۔ میرے جسم میں ایک چادر تھی۔ جب میں (اسے لپیٹ کر) سجدہ کرتا، تو چھوٹی پڑ جاتی۔ چنانچہ قبیلے کی ایک عورت نے کہا: تم اپنے قاری کی شرم گاہ تو پہلے چھپا دو۔ آخر انھوں نے کپڑا خریدا اور میرے لیے ایک قمیص بنائی۔ میں جتنا خوش اس قمیص سے ہوا، اتنا کسی اور چیز سے نہیں ہو سکا۔
[صحیح] - [اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]

شرح

ایوب سختیانی کہتے ہیں: مجھ سے ابوقلابہ جرمی نے کہا کہ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ قصہ کیوں نہیں پوچھ لیتے؟ ابوقلابہ کہتے ہیں کہ پھر میں ان کی خدمت میں گیا اور یہ (قصہ) دریافت کیا۔ انھوں نے کہا کہ جاہلیت میں ہمارا قیام ایک چشمہ پر تھا، جہاں عام راستہ تھا۔ قافلے ہمارے قریب سے گزرتے، تو ہم ان سے پوچھتے کہ لوگوں کا کیا خیال ہے؟ اس شخص کا کیا معاملہ ہے؟ ( یہ اشارہ نبی کریم ﷺ کی طرف ہوتا تھا) لوگ بتاتے کہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے انھیں اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور ان پر وحی اتاری ہے یا اللہ نے ان پر یہ وحی کی ہے۔ وہ آپ سے سنا ہوا قرآن کا کوئی حصہ سنا دیتے اور میں اسے فوراً اچھی طرح یاد کر لیتا۔ ان کی باتیں میرے دل کو لگتی تھیں۔ ادھر سارے عرب والے انتظار میں تھے۔ وہ فتح مکہ تک اسلام قبول کرنے سے گریز کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس نبی کو اور اس کی قوم (قریش) کو آپس میں نمٹنے دو، اگر وہ ان پر غالب آ گئے تو واقعی وہ سچے نبی ہیں۔ چنانچہ جب مکہ فتح ہو گیا، تو ہر قوم نے اسلام لانے میں جلدی کی۔ میرے والد نے اپنی قوم میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ جب (مدینے) سے واپس آئے، تو کہا: اللہ کی قسم! میں ایک سچے نبی کے پاس سے آ رہا ہوں۔ انھوں نے فرمایا ہے:’’فلاں نماز فلاں وقت پڑھا کرو، فلاں نماز فلاں وقت پڑھا کرو اور جب نماز کا وقت ہو جائے، تو تم میں سے کوئی ایک شخص اذان دے اور امامت وہ کرے، جسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہو‘‘۔ لوگوں نے غور و فکر کیا تو کوئی شخص قبیلے میں مجھ سے زیادہ قرآن یاد رکھنے والا نہیں ملا۔ کیوں کہ میں آنے جانے والے قافلوں سے سن کر قرآن مجید یاد کر لیا کرتا تھا۔ چنانچہ مجھے لوگوں نے امام بنادیا، حالاں کہ اس وقت میری عمر چھ یا سات سال تھی۔ میرے جسم پر ایک چادر تھی۔ جب میں (اسے لپیٹ کر) سجدہ کرتا، تو وہ چھوٹی پڑ جاتی۔ چنانچہ قبیلے کی ایک عورت نے کہا: تم اپنے قاری کی شرم گاہ تو پہلے چھپا دو۔ آخر انھوں نے کپڑا خریدا اور میرے لیے ایک قمیص بنائی۔ میں جتنا خوش اس قمیص سے ہوا، اتنا کسی اور چیز سے نہیں ہو سکا۔ اس حدیث سے نماز میں سترعورت کے شرط نہ ہونے کی دلیل نہیں لی جا سکتی؛ کیوں کہ یہ حقیقت حال کا بیان ہے۔ ممکن ہے یہ واقعہ اس وقت پیش آیا ہو جب انھیں ستر عورت کے حکم کا علم ہی نہ رہا ہو۔

ترجمہ: انگریزی زبان اسپینی انڈونیشیائی زبان ایغور فرانسیسی زبان ترکی زبان روسی زبان بوسنیائی زبان ہندوستانی چینی زبان فارسی زبان تجالوج کردی
ترجمہ دیکھیں