عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «اللهم إني أعوذ بك من العَجْزِ، والكَسَلِ، وَالجُبْنِ، والهَرَمِ، والبخل، وأعوذ بك من عذاب القبر، وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات».
وفي رواية: «وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ».
[صحيح] - [متفق عليه.
والرواية الثانية رواها البخاري دون مسلم]
المزيــد ...
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے یہ دعا کرتے تھے:”اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَالْجُبْنِ وَالْهَرَمِ وَالْبُخْلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ“ اے اللہ! میں عاجز ہونے، سستی، بزدلی، بڑھاپے اور بخل سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور میں قبر کے عذاب اور زندگی اور موت کی آزمائشوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔
ایک روایت میں ہے: ”قرض کے بوجھ اور لوگوں کے قہر اور غلبے سے تیری پناہ مانگتا ہوں“۔
[صحیح] - [اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
یہ حدیث جوامع الکلم میں شمار ہوتی ہے، جوامع الکلم سے مُراد یہ ہے کہ آپ ﷺ کم الفاظ میں زیادہ معانی بیان کریں، اس لیے کہ آپ ﷺ نے اس میں ان تمام آفات اور شرور سے پناہ مانگی جو اللہ کی طرف بندے کے متوجہ ہونے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ آپ ﷺ نے عجز اور سستی سے پناہ مانگی، یہ دونوں کام نہ کرنے اور حرکت کرنے میں ایسی رکاوٹیں ہیں جو قریب قریب ہیں۔ یاتو ہمت کمزور ہونے کی وجہ سے یا ارادے کی کمی کی وجہ سے، یہ سستی ہے۔ سست لوگ سب سے کم ہمت اور کم رغبت رکھنے والے ہوتے ہیں اور کبھی کام نہ کرنا بندے کے قدرت نہ رکھنے کی وجہ سے ہوتا ہے اسے عاجز کہتے ہیں۔ ’’بزدلی‘‘ اور ’’بخل‘‘ سے آپ ﷺ نے پناہ مانگی۔ یہ دونوں چیزیں واجب کی ادائیگی اور احسان کی راہ میں رکاوٹ ہیں، بزدلی انسان کے دل کو کمزور کرتی ہے، پھر وہ دل کے کمزور ہونے اور اللہ کے سوا لوگوں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے نہ امر بالمعروف کر سکتا ہے اور نہ نہی عن المنکر کر سکتا ہے۔ ’’بخل‘‘ انسان کو خرچ کرنے کے موقعوں پر خرچ کرنے سے روکتا ہے، بخیل شخص اللہ تعالیٰ کا حق زکوٰۃ نہیں دیتا اور مخلوق پر خرچ کرنے سے باز رہ کر ان کا حق ادا نہیں کرتا۔ چنانچہ یہ اللہ اور لوگوں دونوں کے ہاں مبغوض رہتا ہے۔ " ھَرِم" یعنی انسان کا ارذلِ عمر (کھوسٹ بڑھاپا) کو پہنچ جانا۔ جب انسان انتہائی بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائے تو اپنے اکثر حواس کو وہ کھو بیٹھتا ہے، اس کے قُویٰ کمزور ہوجاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے نہ وہ اللہ کی عبادت کرسکتا ہے اور نہ ہی وہ اپنے گھر والوں کو کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے عذابِ قبر سے پناہ مانگی، عذاب قبر برحق ہے۔ اسی لیے اللہ کے نبی ﷺ نے ہمیں سکھایا کہ ہم ہر نماز میں اس عذاب سے اللہ کی پناہ مانگے۔ پھر آپ ﷺ نے زندگی اور موت کی آزمائشوں سے پناہ مانگی جو کہ دونوں جہانوں کو شامل ہیں، ’’زندگی کی آزمائشوں‘‘ سے مراد دنیوی مصائب اور امتحانات ہیں اور ’’موت کی آزمائشوں‘‘ سے مراد برا خاتمہ اور بُری عاقبت اور قبر میں منکر نکیر کے سوالات وغیرہ ہیں۔ ایک روایت میں ہے”قرض کے بوجھ اور لوگوں کے غلبے سے تیری پناہ مانگتا ہوں“۔ یہ دونوں ظلم وستم ہیں، قرض کا بوجھ اس کی سختی، بار گراں اور اس حال میں کوئی مدد گار کا نہ ہونا یہ آدمی کے لیے ظلم وستم کی حالت ہے جو کہ بجا ہے (یعنی ایسا ہونا قرض دینے والے کی طرف سے کوئی ناحق ظلم نہیں ہے)، ’’غلبة الرجال‘‘ یعنی لوگوں کا تسلط یہ ظلم وستم ناجائز اور باطل ہے۔