عن أبي سعيد الخُدْرِي رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام من الليل كَبَّر، ثم يقول: «سُبْحَانك اللَّهم وبحَمْدِك وتبارك اسْمُك، وتعالى جَدُّك، ولا إله غَيْرك»، ثم يقول: «لا إله إلا الله» ثلاثا، ثم يقول: «الله أكبر كبيرا» ثلاثا، «أعُوذُ بالله السَّميع العليم من الشَّيطان الرَّجيم من هَمْزِه، ونَفْخِه، ونَفْثِه»، ثم يقرأ.
[صحيح] - [رواه أبو داود وابن ماجه والنسائي وأحمد]
المزيــد ...
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب رات کو قیام اللیل کے لیے کھڑے ہوتے، تو تکبیر تحریمہ کہتے، پھر ”سُبْحَانك اللَّهم وبحَمْدِك وتبارك اسْمُك، وتعالى جَدُّك، ولا إله غَيْرَك“ (اے اللہ! تو اپنی تعریف کے ساتھ پاک ہے اور تیرا نام بابرکت ہے، تیری بزرگی بہت بلند ہے اور تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں) پڑھتے۔ پھر تین مرتبہ ”لا إله إلا الله“ (اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں ہے) کہتے، پھر تین مرتبہ ”الله أكبر كبيرا“ (اللہ بہت بڑائی والا ہے) کہتے۔ پھر یہ پڑھتے: ”أعُوذُ بالله السَّميع العليم من الشَّيطان الرَّجيم من هَمْزِه، ونَفْخِه، ونَفْثِه“ (میں اللہ سننے والے اور جاننے والے کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردود سے کہ مجھ پر کوئی جنون کااثر ڈالے، مجھے تکبر میں ڈالے یا جادوکی طرف لے جائے) اور اس کے بعد قراءت شروع کرتے۔
[صحیح] - [اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
حدیث کا مفہوم: ”سول اللہﷺ جب رات کو قیام کے لیے کھڑے ہوتے، تو تکبیر کہتے“ یعنی تکبیر تحریمہ۔ یہ نماز کا رکن ہے۔ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ ”پھر کہتے سُبْحَانك اللَّهم“ یعنی اے رب! میں تیری پاکی بیان کرتا ہوں، ان چیزوں سے، جو تیرے شایان شان نہیں اور تیرے جلال سے فروتر ہیں۔ نیز ہر قسم کے نقص و عیب سے جس پاکی کا تو سزاوار ہے۔ ”وبحَمْدِك“ یہ اس توفیق پر اللہ تعالیٰ کی تعریف اور اس کا شکر ہے۔ یعنی تیری توفیق اور ہدایت کے بغیر میں تیری تسبیح نہیں کر سکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق نہ ملتی۔ یہ بندے کی طرف سے اللہ کے فضل اور اس کے سامنے عاجزی کا اعتراف ہے۔ ”وتبارك اسْمُك“ (تیرا نام بابرکت ہے) 'تبارک' برکت سے ہے۔ یہ وہ کثرت اور وسعت کے معنی میں ہے۔ اس کے معنی ہیں، زمین و آسمان میں اس کی برکتیں بکھری ہوئ ہیں۔ یہ سارا کچھ اس بات پر تنبیہ ہے کہ ساری بھلائیاں اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ خاص ہیں۔ ”وتعالى جَدُّك“ (اپنی بزرگی میں بلند ہے) ’جد‘ سے مراد عظمت ہے۔ یعنی تو اپنی عظمت کے اعتبار سے بلند و بالا، سب سے زیادہ جلال والا، برتر شان کا مالک، تمام بادشاہوں سے زیادہ ہیبت والا بادشاہ ہے۔ وہ اپنی عظمت کے اعتبار سے اس بات سے بلند ہے کہ اس کی بادشاہت، ربوبیت، الوہیت اور اسما و صفات میں اس کا کوئی شریک ہو۔ اس لیے ساتھ ہی کہہ دیا ”ولا إله غَيْرَك“ (تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں) یعنی تیرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں۔ تو ہی عبادت کے لائق ہے۔ تو اپنی ذات اور جن صفات حمیدہ اور بندوں کو نعمتوں سے سرفراز کرنے میں ساجھی و شریک سے بالا تر ہے۔ یہ دعائے استفتاح ہے۔ اس میں ثنا ہے۔ اس کی شان کے خلاف تمام امور سے اس کی پاکی ہے اور اس بات کا ذکر ہے کہ اللہ تعالی ہر عیب اور نقص سے بالا تر ہے۔ یہ استفتاح کی دعاؤں میں سے ایک ہے۔ افضل یہ ہے کہ کبھی اسے پڑھے اور کبھی اسے۔ تاکہ کسی بھی دعا کو چھوڑے بغیر سنت سے ثابت تمام دعاؤں پر عمل کیا جا سکے۔ استفتاح کے طور پر استعمال ہونے والے الفاظ میں سے یہ بھی ہے: ”لا إله إلا الله“ کو تین مرتبہ پڑھا جائے۔ لا الہ الا اللہ کے معنی ہیں، ’معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ﴾ ”بے شک اللہ تعالیٰ ہی برحق معبود ہے، اس کے علاوہ جس کوبھی پکارتے ہیں، وہ باطل ہے“۔ (الحج: 62) پھر تین مرتبہ یہ کہتے: ”الله أكبر كبيرًا“ یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات ہر چیز سے بڑی ہے۔ پھر اس کے بعد اپنی نماز کو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ لیتے ہوئے اس طرح شروع کرے: ”أعُوذُ بالله السَّميع العليم“ (میں اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں شیطان مردود سے) اس کا معنی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے التجا کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی ہی پناہ کو مضبوطی سے تھامتا ہوں۔ ”من الشَّيطان“ (شیطان سے) غالب آنے والا سرکش، انسانوں اور جنوں میں سے۔ ”الرَّجيم“ (مردود) رجم کیا گیا، دھتکارا گیا، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہٹایا گیا ۔ میرے کسی بھی دینی و دنیاوی معاملے میں غالب نہ آئے جس سے مجھے نقصان پہنچتا ہو اور نہ کسی دینی اور دنیاوی معاملے میں رکاوٹ بنے جس سے مجھے کوئی نفع حاصل ہوتا ہو۔جو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ جاتا ہے گویا کہ اس نے بڑی مضبوط جگہ پنا ہ لی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طاقت اور قدرت کو مضبوطی سے تھام لیتا ہے اس دشمن سے جو انسان کو اس کے رب سے جدا کرنا چاہتا ہے اور اس کو شر اور ہلاکت کی گہری کھائیوں میں گرانا چاہتا ہے۔ ”من هَمْزِه“ (کہ مجھ پر کوئی جنون کااثر ڈالے) یعنی جنون اور مرگی وغیرہ جو انسان کو ہو جاتی ہے اور کیونکہ شیطان انسان پر جنون کی طرح طاری ہو جاتا ہے اس لیے اس سے پناہ مانگنا مشروع عمل ہے۔ ”ونَفْخِه“ (تکبر سے) تکبر، کیونکہ شیطان انسان کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے اور اس کو اپنی نظروں میں بڑا کر دیتا ہے اور دوسروں کو حقیر بنا دیتا ہے تو یہ چیز اس کو عظمت و بڑائی میں اور زیادہ کر دیتی ہے۔ ”ونَفْثِه“ (جادو) یہ جادو ہے اور اس سے مراد جادو کا شر ہے کیونکہ گرہوں پر پھونکیں مارنے والیوں سے مراد جادوگر ہیں جو سوت کی گرہ لگاتی ہیں اور ہر گرہ پر پھونک مارتی ہیں اور یہ پھونک مارنے کا بنیادی مقصد جادو ہوتا ہے۔ ”ثم يقرأ“ (پھر قراءت کرتے) یعنی قرآن کی قراءت کرتے اور اس کی ابتدا سورہ فاتحہ سے کرتے۔