عن عائشة قالت: كان رسولُ الله صلى الله عليه وسلم مُضْطجِعًا في بيتي، كاشفًا عن فَخِذَيْه، أو ساقَيْه، فاسْتأذَن أبو بكر فأذِنَ له، وهو على تلك الحال، فتحدَّثَ، ثم اسْتأذَن عُمر، فأذِن له، وهو كذلك، فتحدَّث، ثم اسْتأذَن عثمان، فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وسوَّى ثِيابه -قال محمد: ولا أقول ذلك في يوم واحد- فَدَخَل فتحدَّث، فلمَّا خرج قالت عائشة: دخل أبو بكر فلم تَهْتَشَّ له ولم تُبَالِه، ثم دخل عمر فلم تَهْتَشَّ له ولم تُبَالِه، ثم دخل عثمان فجلستَ وسوَّيتَ ثيابك فقال: «ألا أسْتَحِي من رجل تَسْتَحِي منه الملائكةُ».
[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...
عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ میرے گھر میں لیٹے ہوئے تھے، رانیں یا پنڈلیاں کھولے ہوئے تھے کہ اتنے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی، تو آپ ﷺنے اسی حالت میں اجازت دے دی اور باتیں کرتے رہے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو انہیں بھی اسی حالت میں اجازت دے دی اور باتیں کرتے رہے۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو رسول اللہ ﷺبیٹھ گئے اور کپڑے برابر کر لیے۔ پھر وہ آئے اور باتیں کیں۔ (راوی محمد کہتے ہیں کہ میں نہیں کہتا کہ تینوں کا آنا ایک ہی دن ہوا) جب وہ چلے گئے تو اُمُّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو آپ ﷺنے کوئی حرکت اورکچھ خیال نہ کیا، پھر عمر رضی اللہ عنہ آئے تو بھی آپ ﷺنے کوئی حرکت اورکچھ خیال نہ کیا، لیکن عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ ﷺ بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لیے؟!۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں اس شخص سےحیا نہ کروں جس سے فرشتے حیاکرتے ہیں؟
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ گھر میں رانیں یا پنڈلیاں کھولے ہوئے لیٹے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے داخل ہونے کی اجازت طلب کی تو ان کو اجازت دی اور آپﷺ اسی حالت میں لیٹے رہے کہ آپ کی رانیں اور پنڈلیاں کھلی ہوئیں تھیں۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہوگئے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی، ان کو بھی اجازت دے دی گئی اور آپ ﷺ اسی طرح رہے ، وہ بھی آپﷺ کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہو گئے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے داخلے کی اجازت طلب کی تو رسول اللہﷺ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے، اپنے کپڑے درست کرلیے اور اپنی رانوں اور پنڈلیوں کو ڈھانپ لیا پھر ان کو داخلے کی اجازت دی، وہ داخل ہوئے اور گفتگو میں مصروف ہو گئے۔ جب وہ چلے گئے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے آپ کو کوئی خوشی نہیں ہوئی اور نہ ہی آپ نے ان کے داخل ہونے کو اہم جانا، پھر عمر رضی اللہ عنہ آئے اس پر بھی آپ کو کوئی خوشی نہیں ہوئی اور نہ ہی ان کے آنے کو اہم سمجھا۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ داخل ہوئے یو آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور آپ نے اپنے کپڑے درست کر لیے اور اپنی رانوں یا پنڈلیوں کو ڈھانپ لیا؟!۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ”کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں؟“ یعنی اللہ کے فرشتے بھی عثمان رضی اللہ عنہ سے حیا کرتے ہیں تو میں کیسے اُنْ سے حیا نہ کروں؟! اس حدیث سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ کہ ران کا پردہ نہیں کیونکہ حدیث میں اس کا کھلا ہونا شک کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ وہ پنڈلیاں تھیں یا رانیں۔ اس سے حتمی طور پر ران کو کھولنے کا جواز نہیں ملتا کیونکہ جن احادیث میں ران کو کھولنے کا بیان ہے ان میں رسول اللہﷺ کا فعل بیان ہوا نہ کہ آپ کا قول اور ان روایات کے راویان صغار صحابہ ہیں۔جب کہ وہ احادیث جن میں ران کے پردے کا حکم ہے وہ زیادہ محتاط ہیں اور ان کو بیان کرنے والے کبار صحابہ ہیں اور ان میں آپ کا قول ہے اور قول فعل پر مقدم ہوتا ہے۔ فعل میں بہت سارے احتمال ہوتے ہیں اور ویسے بھی ران کو کھولنے کا حکم انسانوں کی موجودگی کے ساتھ خاص ہے ہر جگہ کے لیے عام حکم نہیں ہے ۔ یہ کہنا کہ ران کا پردہ ہے، لجنہ دائمہ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔