عن أنس بن مالك رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لما صوَّرَ اللهُ آدمَ في الجنة تركه ما شاء الله أن يتركه، فجعل إبليسُ يُطيفُ به، ينظر ما هو، فلما رآه أجوفَ عَرف أنه خُلِقَ خَلْقًا لا يَتَمالَك».
[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ نے جنت میں حضرت آدم علیہ السلام کی صورت بنا لی، تو اپنی مشیت کے بقدر ان (کے جسد) کو وہاں رکھا۔ ابلیس اس کے اردگرد گھوم کر دیکھنے لگا کہ وہ کیسا ہے۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ (جسم) اندر سے کھوکھلا ہے تو اس نے جان لیا کہ اسے اس طرح پیدا کیا گیا کہ یہ خود پر قابو نہیں رکھ سکتا“۔
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جنت میں پیدا کیا اور ان کی شکل بنائی، تو انہیں کچھ عرصہ ایسا ہی چھوڑے رکھا، اس میں روح نہیں پھونکی۔ ابلیس ان کے گرد گھومنے لگا اور دیکھتا رہا تاکہ یہ معلوم کرے کہ یہ کیا چیز ہے۔ جب اس نے دیکھا کہ یہ اندر سے خالی ہے اور درمیان سے کھوکھلی ہے، تو وہ جان گیا کہ یہ کمزور مخلوق ہے اور اپنے آپ سے وسوسے دور نہیں کرسکتا یا یہ جان لیا کہ یہ پیٹ کی طرف سے گناہ کرسکتا ہے، تو اس نے اسے درخت کھانے پر لگا دیا یا اسے علم ہوا کہ اندر سے خالی مخلوق کمزور ہوتی ہے۔ یہاں بعض لوگ ”في الجنة“ کے الفاظ پر اعتراض کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تو آدم علیہ السلام کو زمین کے اجزاء سے پیدا کیا ہے (وہ جنت میں کیسے پہنچ گئے؟!)۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں یہ احتمال ہے کہ انہیں ایسا چھوڑا گیا، جب کچھ عرصہ ایسا ہی گزرا اور روح پھونکنے کے لیے شکل تیار کی گئی، پھر انہیں جنت لے جا کر روح پھونکی گئی۔