عن أنس رضي الله عنه قَالَ: كَانَتْ ناقةُ رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم العضْبَاءُ لاَ تُسْبَقُ، أَوْ لاَ تَكَادُ تُسْبَقُ، فَجَاءَ أعْرَابيٌّ عَلَى قَعودٍ لَهُ، فَسَبَقَهَا، فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ حَتَّى عَرَفَهُ، فَقَالَ: "حَقٌّ عَلَى اللهِ أنْ لاَ يَرْتَفِعَ شَيْءٌ مِنَ الدُّنْيَا إِلاَّ وَضَعَهُ".
[صحيح] - [رواه البخاري بنحوه]
المزيــد ...
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی ایک اونٹنی تھی جس کا نام عضباء تھا۔ کوئی اونٹنی اس سے آگے نہیں بڑھتی تھی یا (راوی نے) یوں کہا وہ پیچھے رہ جانے کے قریب نہ ہوتی پھر ایک دیہاتی اپنے ایک توانا اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور آپ ﷺ کی اونٹنی سے اس کا اونٹ آگے نکل گیا۔ مسلمانوں پر یہ بڑا شاق گزرا یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ کو اس کا علم ہو گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا یہ دستور ہے کہ دنیا میں جو چیز بھی بلند ہوتی ہے اسے وہ (کبھی نہ کبھی) پست کردیتا ہے“۔
[صحیح] - [امام بخاری نے اسی کے مثل روایت کی ہے۔]
حدیث میں ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ کی اونٹنی ’عضباء‘ کے بارے میں صحابہ سے منقول ہے کہ اس سے کوئی سواری آگے نہیں بڑھتی تھی یا وہ پیچھے نہیں رہ جاتی تھی، یہ اعرابی اپنی سواری پر آیا اور عضباء سے آگے بڑھ گیا، یہ صحابہ کرام پر گراں گزرا۔ آپ ﷺ نے جب صحابۂ کرام کی کیفیت کو محسوس کیا، تو فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا یہ دستور ہے کہ دنیا میں جو چیز بھی بلند ہوتی ہے اسے وہ گراتا بھی ہے“ یعنی دنیا میں بلند ہونے والی ہر چیز کو زوال ہے۔ اگر یہ بلندی دلوں میں ہو تو اسے پستی بہت جلد آتی ہے، اس لیے کہ پستی اس کی سزا ہے۔ لیکن اگر یہ ارتفاع مزاج کا حصہ نہ بنی ہو تو وہ ضرور واپس لوٹتی ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان "من الدنيا" اس بات پر دلیل ہے کہ آخرت کے کاموں میں سے جو چیز بلند ہوتی ہے اللہ اسے نہیں گراتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿يَرْفَعِ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ﴾ ”اللہ تعالیٰ تم میں سے جو لوگ ایمان ﻻئے ہیں اور جو علم دیے گئے ہیں، اُن کے درجات بلند کر دے گا“۔ آیت میں مذکور یہ لوگ جب تک اپنے علمی اور ایمانی صفات سے متصف ہوں گے ایسا ممکن نہیں کہ اللہ انہیں رسوا کرے۔ اس لیے کہ اللہ ان کو ذلیل نہیں کرتا بلکہ ان کا نام بلند کرتا ہے اور آخرت میں ان کے درجات بلند کرتا ہے۔