عن جَبَلَةَ بنِ سُحَيْمٍ، قال: أَصَابَنَا عَامُ سَنَةٍ مع ابنِ الزبيرِ؛ فَرُزِقْنَا تمرًا، وكان عبدُ اللهِ بنُ عمرَ رضي الله عنهما يَمُرُّ بنا ونحن نَأْكُلُ، فيقول: لا تُقَارِنُوا، فإنَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلم نهى عن القِرَانِ، ثم يقولُ: إلا أَنْ يَسْتَأْذِنَ الرجلُ أَخَاهُ.
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
جبلہ بن سحیم نے بیان کیا، کہ ہمیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک سال قحط کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے ہمیں کھانے کے لیے کھجوریں دیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہمارے پاس سے گزرتے اور ہم کھجور کھاتے ہوتے تو وہ فرماتے کہ: دو کھجوروں کو ایک ساتھ ملا کر نہ کھاؤ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے دو کھجوروں کو ایک ساتھ ملا کر کھانے سے منع کیا ہے۔ پھر فرمایا :سوائے اس صورت کے، کہ جب اس کو کھانے والا شخص اپنے ساتھی سے (جو کھانے میں شریک ہے) اس کی اجازت لے لے۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
جبلہ بن سحیم نے بیان کیا کہ ہمیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک سال قحط کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے ہمیں کھانے کے لیے کھجوریں دیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہمارے پاس سے گزرتے اور ہم کھجور کھاتے ہوتے تو وہ فرماتے کہ نبی ﷺ دو کھجوروں اور ان کے مثل جن چیزوں کو ایک ایک کرکے کھایا جاتا ہے ایک ساتھ ملا کر لوگوں کے ساتھ کھانے سے منع فرمایا ہے، اِلاّ یہ کہ اس کے ساتھی اس کی اجازت دیں تو کھایا جاسکتا ہے۔ لہٰذا ہر وہ چیز جو عادتاً ایک ایک کھائی جاتی ہو جیسے کھجور، تو زیادہ لوگوں میں ایک لقمے میں دو دو کھجوریں نہ کھاؤ۔ اس لیے کہ یہ دوسرے بھائیوں کو تکلیف دینے کا باعث ہوگا۔ لہذا ان سے زیادہ نہ کھاؤ، اِلاّ یہ کہ ان سے اجازت لے لو۔ ان سے کہو کہ کیا تم مجھے ایک ساتھ دو کھجوریں کھانے کی اجازت دیتے ہو؟ اگر وہ اس کی اجازت دے دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں‘‘۔ نوٹ: صحیح بخاری میں ہے: ”فَرَزَقَنَا“ چاروں پر فتحہ کے ساتھ ہے اور فاعل ابن زبیر ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ہمیں دیں۔ اور بیہقی کی ایک روایت میں ہے: ”فَرُزْقْنا“ راء کے پیش کے ساتھ مجہول کا صیغہ ہے، اس میں احتمال یہ ہے کہ رازق اللہ تعالیٰ ہے۔