عن جابر رضي الله عنه قال: أراد بنو سلمة أن ينتقلوا للسكن قرب المسجد فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لهم: «إنه قد بلغني أنكم تُريدون أن تنتقلوا قُرب المسجد؟» فقالوا: نعم، يا رسول الله قد أردنا ذلك، فقال: «بَنِي سَلِمَة، دِيارَكُم، تُكتب آثارُكُم، ديارَكُم تُكتب آثاركُم».
وفي رواية: «إن بكلِّ خَطْوَة درجة».
[صحيح] - [رواه مسلم بروايتيه، ورواه البخاري بمعناه من حديث أنس-رضي الله عنه]
المزيــد ...
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بنو سلمہ (قبیلہ) نے مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ کیا۔ نبی کریم ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے ان سے فرمایا مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ تم لوگ مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ رکھتے ہو، تو انہوں نے عرض کیا ہاں یارسول اللہ ہمارا ارادہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے بنوسلمہ! اپنے گھروں میں ہی رہو، تمہارے قدموں کے نشان لکھے جاتے ہیں، اپنے گھروں میں ہی رہو تہمہارے قدموں کے نشان لکھے جاتے ہیں“۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ ”تمہارے ہر قدم پر ایک درجہ ہے“۔
[صحیح] - [امام بخاری نے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ - اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
اس حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ بنو سلمہ نے مسجد سے دور اپنی جگہ سے مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ کیا تو نبی کریم ﷺ نے ناپسند فرمایا تاکہ مدینہ خالی نہ ہو جاۓ جیسا کہ بخاری کی روایت میں ہے۔ اور آپ ﷺ کی یہ خواہش تھی کہ مدینے کو زیادہ سے زیادہ آباد کیا جاۓ تاکہ اس کی وسعت کے باعث منافقین اور مشرکین پر رعب قائم ہو۔ پھر آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ تم لوگ مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ رکھتے ہو؟، تو انہوں نے عرض کیا ہاں یارسول اللہ! ہمارا ایسا ہی ارادہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے بنوسلمہ! اپنے گھروں میں ہی رہو تمہارے قدموں کے نشان لکھے جاتے ہیں“۔ آپ ﷺ نے یہ بات دو مرتبہ کہی۔ اور ان کو بتایا کہ تمہارے ہر قدم پر ایک نیکی یا درجہ ہے۔ ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے سب سے زیادہ اجر کا حقدار وہ ہے جس کا گھر (مسجد سے) دور ہو۔ پوچھا گیا: وہ کیوں اے ابو ہُریرہ؟ تو فرمایا (مسجد تک چلنے والے) قدموں کی کثرت کے باعث۔ (مؤطا امام مالک) پس جو مسجد سے جتنا دور ہوگا یہ اس کے لیے درجات میں بلندی اور گناہوں کے کفارے کا باعث ہو گا۔ یہ فضیلت اس وقت حاصل ہوگی جب کوئی شخص گھر میں اچھی طرح وضو کرے، پھر پیدل جاۓ سوار نہ ہو۔ پھر چاہے قدم تھوڑے ہوں یا زیادہ اس کے لیے ہر قدم پر دو چیزیں لکھی جائیں گی: اس کا ایک درجہ بڑھے گا اور ایک گناہ معاف ہوگا۔ نبی ﷺ کے ایک صحابی سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص اچھی طرح وضو کرے اور پھر نماز کے لیے جائے تو جب دایاں پاؤں اٹھاۓ گا تواللہ اس کے لیے ایک نیکی لکھے گا۔ اور جب بایاں پاؤں اٹھائے گا تو اللہ اس کا ایک گناہ معاف کر دے گا۔ پس جو قریب ہوسکے ہو جاۓ اور جو دور ہونا چاہے دور ہو جاۓ“۔ (ابو داود) ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: آج رات میرا رب میرے پاس خوبصورت شکل میں آیا - راوی کا بیان ہے کہ میرا گمان ہے اس سے آپ ﷺ کی مراد نیند میں ہے- اور مجھ سے فرمایا اے محمد ﷺ کیا آپ کو یہ علم ہے کہ ملأ اعلی (بلند فرشتے) کس چیز میں تکرار کرتے ہیں؟ تو میں نے کہا ہاں، وہ کفارات اور درجات میں تکرار کر رہے ہیں! پوچھا یہ کفارات اور درجات کیا ہیں؟ کہا: کفارات اور درجات یہ ہیں کہ نماز کے بعد مسجد میں ہی ٹھہرنا اور باجماعت نماز کے لیے پیدل چلنا اور ناپسندیدگی کے باوجود مکمل طور سے وضو کرنا۔ (مسند احمد) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ درجات کا حصول چند باتوں پر منحصر ہے: 1۔ طہارت کے ساتھ مسجد جانا۔ 2۔ ثواب کی نیت۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے۔ (متفق علیہ)۔ 3۔ گھر سے مسجد جانے ہی کے ارادے سے نکلنا۔ 4۔ سواری کے بجاۓ پیدل جانا سواۓ ایسے شخص کے جسے کوئی عذر لاحق ہو۔