عن حُصين بن عبد الرحمن قال: كنتُ عند سعيد بن جُبير فقال: أيكم رأى الكوكب الذي انقَضَّ البارحة؟ فقلتُ: أنا، ثم قلتُ: أما إني لم أكن في صلاة، ولكني لُدغْتُ، قال: فما صنعتَ؟ قلت: ارتقيتُ، قال: فما حَمَلك على ذلك؟ قلت: حديث حدَّثَناه الشعبي، قال: وما حدَّثَكم؟ قلتُ حدثنا عن بريدة بن الحُصيب أنه قال: "لا رُقْية إلا مِن عَيْن أو حُمَة"، قال: قد أحسَن مَن انتهى إلى ما سمع، ولكن حدثنا ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال:
"عُرضت عليّ الأُمم، فرأيتُ النبي ومعه الرَّهط والنبي ومعه الرجل والرجلان، والنبي وليس معه أحد، إذ رُفع لي سواد عظيم فظننتُ أنهم أمَّتي، فقيل لي: هذا موسى وقومه، فنظرتُ فإذا سواد عظيم، فقيل لي: هذه أمَّتك، ومعهم سبعون ألفا يدخلون الجنة بغير حساب ولا عذاب، ثم نهض فدخل منْزله، فخاض الناس في أولئك؛ فقال بعضهم: فلعلهم الذين صحِبوا رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال بعضهم: فلعلهم الذين وُلِدُوا في الإسلام فلم يشركوا بالله شيئا، وذكروا أشياء، فخرج عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبروه، فقال: هم الذين لا يَسْتَرقون، ولا يَكْتَوُون، ولا يَتَطَيَّرون، وعلى ربهم يتوكلون، فقام عُكاشة بن مِحصَن فقال: ادع الله أن يجعلني منهم، قال: أنت منهم، ثم قام جل آخر فقال: ادع الله أن يجعلني منهم، فقال: سَبَقَك بها عكاشة".
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
حصین بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ: میں سعید بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا تو انہوں نے پوچھا: تم میں سے کس نے اس تارے کو دیکھا جو کل رات ٹوٹا؟ میں نے کہا: میں نے دیکھا، پھر میں نے کہا: میں اس وقت نماز میں نہیں تھا کیونکہ میں (کسی زہریلے بچھو کے ذریعہ) ڈس لیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا: تم نے کیا کیا؟ میں نے کہا: جھاڑ پھونک کیا۔ انہوں نے کہا: تمہیں کس چیز نے اس بات پر ابھارا؟ میں نے کہا: شعبی کی بیان کردہ ایک حدیث نے۔ انہوں نے کہا: شعبی نے کیا بیان کیا؟ میں نے کہا: ہم سے انہوں نے بریدہ بن حُصیب سے بیان کیا کہ انہوں نے کہا: ”نظر بد اور زہریلے جانور کے کاٹ کھانے کے سوا اور کسی چیز پر جھاڑ پھونک صحیح نہیں“۔ انہوں نے کہا: جو کچھ تم نے سنا ٹھیک سنا۔ لیکن مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کردہ حدیث بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”میرے سامنے تمام امتیں پیش کی گئیں میں نے ایک نبی کو دیکھا، ان کے ساتھ ایک چھوٹا سا (دس سے کم کا) گروہ تھا، کسی (اور) نبی کو دیکھا کہ اس کے ساتھ ایک یا دو امتی تھے، کوئی نبی ایسا بھی تھا کہ اس کے ساتھ کوئی امتی نہ تھا، آخر میرے سامنے ایک بڑی بھاری جماعت آئی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں، کیا یہ میری امت کے لوگ ہیں؟ مجھ سے کہا گیا کہ: یہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم ہے، میں نے دیکھا کہ ایک بہت ہی عظیم جماعت ہے، پھر مجھ سے کہا گیا : یہ آپ کی امت ہے اور اس میں سے ستر ہزار حساب اور عذاب کے بغیر جنت میں داخل کر دیئے جائیں گے۔ پھر آپ اٹھے اور اپنے حجرہ میں تشریف لے گئے، لوگ ان جنتیوں کے بارے میں بحث کرنے لگے، اور کچھ لوگ کہنے لگے: شاید کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت پائی ہے۔ اور کچھ لوگوں نے کہا: شاید یہ وہ لوگ ہیں جن کی ولادت اسلام میں ہوئی اور انہوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا۔ اور بہت سی باتیں لوگوں نے کہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم باہر تشریف لائے اور آپ کو اس بات کی خبر دی گئی تو آپ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کراتے، داغ کر علاج نہیں کرتے اور بد شگونی و فال نہیں لیتے بلکہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس پر عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا :آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ مجھے انہیں میں کردے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم انہیں میں سے ہو۔ پھر ایک دوسرے صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا : آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ مجھے انہیں میں کردے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : عکاشہ تم سے بازی لے گئے“۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
حصین بن عبد الرحمٰن رحمہ اللہ نے جھاڑ پھونک سے متعلق اپنے اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ کے مابین ہونے والی گفتگو کو بیان کیا ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ حصین کو بچھو نے ڈس لیا اور انھوں نے مشروع رقیہ کے ذریعے جھاڑ پھونک کیا۔ جب سعید نے ان سے دلیل طلب کی، تو انھوں نے شعبی کی وہ حدیث بیان کی، جو نظر بد اور زہر کے لیے جھاڑ پھونک کو مباح قرار دیتی ہے۔ سعید نے اس پر ان کی تعریف کی، لیکن اس کے ساتھ ان کے لیے ترکِ رقیہ کو بہتر قرار دینے والی حدیث بیان کی۔ وہ حدیث ابن عباس سے مروی ہے، جس میں چار صفات سے متصف لوگوں کو حساب و عذاب کے بغیر جنت کا مستحق بتایا گیا ہے، جو درج ذیل ہیں:جھاڑ پھونک سے اجتناب کرنا، داغنے کے علاج سے پرہیز کرنا، بد فالی سے دور رہنا اور اللہ تعالیٰ پر سچا بھروسہ کرنا۔ جب عکاشہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس جماعت میں شامل ہونے کے لیے دعا کی درخواست کی، تو آپ نے بتایا کہ تم انھیں میں سے ہو۔ لیکن جب یہی گزارش دوسرے صحابی نے کی، تو آپ نے ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے منع کر دیا؛ تاکہ اس سلسلے کا سد باب کیا جا سکے۔