عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه مرفوعاً: «احْتَجَّتِ الجنَّة والنَّار، فقالتِ النَّار: فيَّ الجبَّارون والمُتَكَبِّرُون. وقالتِ الجنَّة: فيَّ ضُعَفَاء الناسِ ومساكِينُهُم، فقضى الله بَيْنَهُمَا: إِنك الجنَّة رحْمَتي أَرحم بك من أشاء، وإِنك النَّار عذابي أُعذب بك من أشاء، ولِكِلَيْكُمَا عليَّ مِلْؤُهَا».
[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جنت اور دوزخ نے آپس میں جھگڑا کیا تو دوزخ نے کہا کہ میرے اندر بڑے سرکش اور متکبر لوگ ہوں گے۔ اور جنت نے کہا کہ میرے اندر کمزور اور مسکین قسم کے لوگ ہوں گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرمایا:’اے جنت! تو میری رحمت ہے میں تیرے ذریعے جس پر چاہوں گا رحم کروں گا اور اے جہنم، تو میرا عذاب ہے میں تیرے ذریعے جس کو چاہوں گا عذاب دوں گا اور تم دونوں کو بھرنا میرے ذمے ہے‘۔
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جنت ودوزخ کے مابین جھگڑا ہوا تو ہر کسی نے اپنی اپنی دلیل دی ۔ (اس حدیث میں جو کچھ بیان ہوا) اس کا تعلق امور غیب سے ہے جس پر ایمان لانا ہم پر واجب ہے اگرچہ عقل اسے بعید ہی جانے ۔ جنت نے دوزخ کے مقابلے میں اپنی دلیل دی اور دوزخ نے جنت کے خلاف اپنی دلیل پیش کی ۔ دوزخ نے کہا کہ اس میں سرکش و متکبر لوگ ہوں گے ۔ جبار لوگوں سے مراد وہ لوگ ہیں جن میں سختی اور درشتگی ہوتی ہے اور متکبر لوگ وہ ہیں جو اپنی برتری اور بڑکپن جتاتے ہیں یعنی جو لوگوں کو حقیر جانتے ہیں اور حق کو جھٹلاتے ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ نے کبر کے بارے فرمایا کہ (کبر سے مراد) حق کو جھٹلانا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔ چنانچہ سرکش اور متکبر لوگ دوزخی ہیں ۔ العیاذ باللہ ۔ بسا اوقات ایسے ہوتا ہے کہ دوزخی شخص لوگوں کے لیے تو بڑا نرم خو اور خوش اخلاق ہوتا ہے تاہم حق کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں وہ سرکشی دکھاتا ہے اور اس کا انکار کرتا ہے چنانچہ ایسے شخص کو لوگوں کے ساتھ اس کی یہ نرم خوئی اور مہربانی کوئی فائدہ نہیں دیتی، بلکہ اس کے باوجود بھی وہ سرکش و متکبر ہی ہوتا ہے اگرچہ لوگوں کے لیے وہ نرم خو ہی کیوں نہ ہو ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرمایا اور جنت سے کہا:’’اے جنت! تو میری رحمت ہے میں تیرے ذریعے سے جس پر چاہوں گا رحم کروں گا‘‘ اور جہنم سے کہا: اور اے جہنم، تو میرا عذاب ہے میں تیرے ذریعے سے جس کو چاہوں گا عذاب دوں گا‘‘ اور پھر عزوجل نے کہا: ’’ اور تم دونوں کو بھرنا میرے ذمے ہے۔'' اللہ عزوجل نے اپنے اوپر یہ ذمہ داری اور وعدہ لے رکھا ہے کہ وہ جنت وجہنم کو بھردے گا، تاہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی فضل ومہربانی اس کے غضب سے وسیع ہے۔ چنانچہ روزِقیامت جب جہنمیوں کو آگ میں ڈال چکے گا تو جہنم کہے گی: اور کوئی ہے، یعنی مجھے اور دو، مجھے اور دو، زیادہ دو، چنانچہ اس میں اللہ اپنے پیرکو رکھے گا، اور ایک لفظ میں ’’قدم‘‘ کا ذکر ہے، چنانچہ جہنم کے حصے آپس میں سکڑ جائیں گے، اور رب عزّ وجلّ کے اس میں قدم رکھنے کی وجہ سے آپس میں جہنم مل جائے گی، اور کہے گی: بس بس یعنی کافی ہے کافی ہے، اور یہی جہنم کا بھرنا ہے۔ رہی بات جنت کی توجنت بہت وسیع ہے، اس کی چوڑائی آسمان وزمین کے برابر ہے، اس میں جنتی داخل ہوں گے اور ان جنتیوں کے مقدار کے مطابق زائد حصہ باقی رہ جائے گا، چنانچہ اس کے لیے اللہ ایک ایسی قوم کو پیدا کرے گا جنہیں اپنے فضل وکرم سے جنت میں داخل کرے گا، کیونکہ اللہ نے اس کے بھرنے کی ذمہ داری لے رکھی ہے۔