عن أبي الأسود، قال: قَدِمْتُ المدينة، فَجَلَسْتُ إلى عمر بن الخطاب رضي الله عنه فَمَرَّتْ بهم جَنازة، فَأُثْنِيَ على صاحِبِها خيراً، فقال عمر: وجَبَتْ، ثم مَرَّ بأُخْرَى فَأُثْنِيَ على صاحِبِها خيراً، فقال عمر: وجَبَتْ، ثم مَرَّ بالثالثة، فَأُثْنِيَ على صاحِبِها شَرَّا، فقال عمر: وجَبَتْ، قال أبو الأسود: فقلت: وما وجَبَتْ يا أمير المؤمنين؟ قال: قلت كما قال النبي صلى الله عليه وسلم : «أيُّما مُسلم شَهِد له أربعة بخير، أدخله الله الجنة» فقلنا: وثلاثة؟ قال: «وثلاثة» فقلنا: واثنان؟ قال: «واثنان» ثم لم نَسْأَلْهُ عن الواحد.
[صحيح] - [رواه البخاري]
المزيــد ...
ابوالاسود فرماتے ہیں کہ میں مدینہ میں آیا تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ لوگوں کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی تعریف کی،تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ واجب ہو گئی۔ پھر ایک اور جنازہ گذرا تو لوگوں نے اس کا بھی ذکرخير کيا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”واجب ہو گئی“۔ پھر تيسرا جنازہ گذرا تو لوگوں نے اس کی برائی کی۔ اس بار بھی عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”واجب ہو گئی“۔ ابو الاسود کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اميرالمومنين کيا چیز واجب ہوگئی؟ انہوں نے جواب دیا: ميں نے وہی بات کہی ہے جو نبی ﷺ نے فرمائی ہے: ”جس مسلمان کے متعلق چار آدمی بھلائی کی گواہی دے ديں، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرےگا“۔ ۔ہم نے عرض کيا:اور تين لوگ (جس کےحق ميں گواہی ديں) تو؟ آپ ﷺ نے فرمايا:”اور تين آدمی بھی“۔ ۔ہم نے عرض کيا: اور دو لوگ (جس کےحق ميں گواہی ديں)؟ تو آپ ﷺ نے فرمايا: ”اوردو لوگ بھی“۔ پھر ہم نے آپ ﷺ سے ایک شخص کے بارے میں نہیں پوچھا۔
[صحیح] - [اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
عمر رضی اللہ عنہ کے پاس سےایک جنازہ گزرا، اس وقت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ لوگ بيٹھے تھے۔ ان لوگوں نے ميت کے لیے خیر و صلاح کی گواہی دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کے ليے يہ ثابت ہوگيا۔ پھر ایک دوسرا جنازہ گذرا تو لوگوں نے پہلے جنازہ کی طرح اس کے لیے بھی خیر و صلاح کی گواہی دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کے ليے يہ ثابت ہو گيا۔ پھر تيسرا جنازہ گذرا تو لوگوں نے اس کے لیے برے حال کی کی گواہی دی۔تو اس پر بھی عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کے ليے يہ ثابت ہو گيا۔ ابو الاسود‘ عمر رضی اللہ عنہ کی بات سمجھ نہ سکے تو اس کے مفہوم کی وضاحت چاہی۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نےکہا کہ ميں نے وہی کہا ہے جو نبی ﷺ نے فرمايا تھا: جس مسلمان کے متعلق چار اچھے اور نیک لوگ یہ گواہی دے ديں کہ وہ اچھے اور نیک لوگوں میں سے ہے تو اس کے ليے جنت واجب ہو گئی۔ صحابہ نے جب آپ ﷺ سے يہ بات سنی تواس شخص کے بارے ميں پوچھا جس کے اچھے ہونے کی تين لوگ گواہی ديں؟ تو آپ ﷺ نے فرمايا: اور اسی طرح اگر اس کے اچھے ہونے کی تين لوگ گواہی دیں تو اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔ صحابہ نے عرض کيا: کیاجس کے لیے دو لوگ گواہی ديں اس کے لیے بھی جنت ہے؟” آپ ﷺ نے فرمايا:“ جس کے ليے دو گواہ ہوں تو اس کےليے بھی جنت ہے۔(راوی کہتے ہیں) اور ہم نے آپ سے اس شخص کے بارے ميں دريافت نہيں کيا جس کے حق ميں صرف ايک آدمی خیر کی گواہی دے‘ کيا وہ جنت ميں داخل ہوگا؟