عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :"إن أعتى الناس على الله ثلاثة: من قَتَلَ فِي حَرَمِ اللهِ، أَوْ قَتَلَ غَيْرَ قَاتِلِهِ، أَوْ قَتَلَ بِذُحُولِ الجاهلية".
[حسن] - [رواه ابن حبان وأحمد، وأصله في البخاري من حديث ابن عباس]
المزيــد ...
عمرو بن شعیب اپنے والد کے حوالے سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "اللہ کے نزدیک سب سے سرکش وہ ہے, جواللہ کے حرم کے اندر قتل کرے, یا جو اپنے قاتل کے سوا کسی اور کو قتل کرے یا جو زمانۂ جاہلیت کی عداوت وانتقام کی بنا پر قتل کرے"۔
[حَسَنْ] - [اسے ابنِ حبان نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
عبد اللہ بن عمرو بتا رہے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے کہ قتل کے معاملے میں اللہ کے نزدیک سب سے سرکش لوگ تین ہیں: پہلا وہ جس نے اللہ کے پر امن حرم یعنی مکہ کے اندر کسی کو ناحق قتل کر دیا۔ کیونکہ کسی کو ناحق قتل کرنا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے اور قتل کی واردات جب حرم کے اندر ہو، تو اس کی حرمت اور گناہ اور بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : {ومن يُرِدْ فيه بإلحاد بظلم نُذِقْهُ من عذاب أليم } [الحج، آیت نمبر:25] یعنی جو بھی وہاں ظلم کے ساتھ الحاد کا ارادہ کرے گا، ہم اسے درد ناک عذاب چکھائیں گے۔ ساتھ ہی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث میں ہے : "بے شک تمھارا خون، تمھاری عزت و آبرو اور تمھارے اموال تمھارے لیے اسی طرح قابل احترام ہیں، جس طرح تمھارے اس شہر میں تمھارا یہ مہینہ قابل احترام ہے"۔ [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ حدیث نمبر : 1218] دوسرا وہ آدمی، جو اپنے قاتل کے علاوہ کسی اور کو قتل کر دے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : {ولا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أخرى} [الأنعام: 164] یعنی کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ آدمی اپنے قاتل کو علاوہ کسی اور کا قتل کر دے یا اس کے ساتھ کسی اور کو بھی مار دے۔ دراصل ان تین وجوہات کی بنا پر کسی کا خون بہا دینا دور جاہلیت کی عادت تھی، جس سے اللہ نے منع کیا ہے۔ تیسرا وہ آدمی، جو دور جاہلیت کی عداوتوں اور انتقاموں کی وجہ سے، جن کو اسلام نے کالعدم قرار دے دیا ہے، قتل کرے۔ لیکن علما نے دو لوگوں کو اس سے مستثنی قرار دیا ہے۔ ایک وہ شخص جو اپنے بچاو میں کسی کا قتل کر دے، جب قتل کے علاوہ کوئی صورت نہ بچی ہو اور دوسرا وہ شخص جو حرم کے اندر کوئی جرم کرے، جس سے اس کا قتل مباح ہو جائے، جیسے قتل عمد وغیرہ۔ ایسا اس لیے، تاکہ حرم جرائم کا ذریعہ نہ بن جائے۔