عن جابِر بن عبد الله رضي الله عنهما قال: «جاء رجل والنبي صلى الله عليه وسلم يَخْطُبُ الناس يوم الجمعة، فقال: صليت يا فلان؟ قال: لا، قال: قم فاركع ركعتين، -وفي رواية: فصل ركعتين-».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ جمعہ کے دن لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے کہ اسی اثناء میں ایک شخص آیا۔ آپ ﷺ نے پوچھا: اے فلاں! کیا تو نے نماز پڑھی؟ اس نے جواب دیا:نہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: اٹھو اور دو رکعت پڑھ لو۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
سُلیک غطفانی رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں داخل ہوئے جب کہ نبی ﷺ لوگوں کے سامنے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ وہ خطبہ سننے کے لئے بیٹھ گئے اور تحیۃ المسجد کی نماز نہ پڑھی؛ یا تو اس وجہ سے کہ وہ اس کے حکم سے واقف نہیں تھے یا پھر اس لئے کہ ان کے گمان میں خطبہ سننا زیادہ اہم تھا۔ نبیﷺ اگرچہ وعظ و نصیحت اور خطبہ دینے میں مصروف تھے لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ انہیں تعلیم دینے سے نہ رکے بلکہ آپ ﷺ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: اے فلاں! کیا میرے دیکھنے سے پہلے تم نے مسجد کے ایک گوشے میں نماز پڑھ لی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ: نہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: کھڑے ہو جاؤ اور دو رکعت نماز پڑھو۔ مسلم شریف کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ: آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ یہ دو رکعتیں ہلکی پڑھیں۔ آپ ﷺ نے ایک بڑے مجمع کے سامنے یہ کہا تھا تاکہ اس آدمی کو ضرورت کے وقت تعلیم دیں، اور تا کہ یہ تعلیم سب حاضرین کے لئے ہو جائے۔ لہذا جو شخص مسجد میں آئے اور خطیب خطبہ دے رہا ہو تو اس کے لئے مشروع یہ ہے کہ وہ تحیۃ المسجد کی نماز پڑھے۔ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے اور اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ: تم میں سے جب کوئی جمعہ کے دن (مسجد میں) آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ دو رکعت پڑھ لے۔ اسی لئے علامہ نووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی شرح میں آپ ﷺ کے اس فرمان:" تم میں سے جب کوئی جمعہ کے دن (مسجد میں) آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ دو رکعت مختصرپڑھ لے۔" فرمایا کہ: یہ نص ہے جس میں تاویل کا کوئی راستہ نہیں۔ اور میں نہیں سمجھتا کہ کوئی ایسا عالم بھی ہو گا جس کے پاس یہ الفاظ پہنچیں اور وہ ان کوصحیح جانے اور پھر بھی ان کی مخالفت کرے۔