عن سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ رضي الله عنه وكان من أصحاب الشجرة قال: «كنا نُصَلِّي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الْجُمُعَةَ، ثم نَنْصَرِفُ، وليس للحيطان ظِلٌّ نستظِلّ به».
وفي لفظ: «كنا نُجَمِّعُ مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا زالت الشمس، ثم نرجع فَنَتَتَبَّعُ الْفَيْءَ».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ (جو بیعت رضوان میں شریک تھے) سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھتے ، پھر گھروں کو واپس ہوتے تو دیواروں کا سایہ اتنا نہیں ہوتا تھا کہ ہم اس سایے میں چل سکتے۔
دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جمعہ کی نماز اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈھل جاتا۔ پھر ہم سایہ تلاش کرتے ہوئے واپس آتے تھے۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
سلمۃ بن الاکوع رضی اللہ عنہ ذکر کرتے ہیں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ اول وقت (زوال سے کچھ قبل) میں جمعہ کی نماز پڑھتے تھے، اس طرح کہ دونوں خطبوں اور نماز سے فارغ ہو کر اپنے گھروں کو لوٹتے تو دیواروں کا اتنا سایہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ چلتے وقت سایہ حاصل کر پاتے۔ دوسری روایت میں ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سورج زائل ہونے کے بعد آپ ﷺ کے ساتھ جمعے کی نماز پڑھ کر واپس لوٹتے تھے۔ علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جمعے کی نماز ظہر کی نماز کے آخری وقت تک پڑھی جاسکتی ہے۔ تاہم افضل اور بہتر یہ ہے کہ زوال کے بعد پڑھی جائے، اس لیے کہ آپ ﷺ کا اکثر یہی معمول تھا، ساتھ ہی اس لیے بھی کہ اس پر تمام علما کا اتفاق ہے۔ البتہ اگر کوئی ضرورت ہو، جیسے سخت گرمی ہو اور سایہ دار جگہ نہ ہو یا زوال سے پہلے جہاد کے لیے نکلنے کا ارادہ ہو، تو زوال سے تھوڑا پہلے جمعے کی نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔