عن زَيْد بن أَرْقَمَ رضي الله عنه قال: «كُنّا نتكلم في الصلاة، يُكَلِّمُ الرجل صاحبه، وهو إلى جنبه في الصلاة، حتى نزلت ((وقوموا لله قانتين))؛ فَأُمِرْنَا بالسكوت ونُهِينَا عن الكلام».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوۓ کہتے ہیں: ہم نماز میں کلام کیا کرتے تھے۔ آدمی دوران نماز اپنے بغل والے شخص سے بات کرلیا کرتا تھا، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی ﴿وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ﴾ ”اور اللہ تعالیٰ کے لیے باادب کھڑے رہا کرو“ اس کے بعد ہمیں نماز میں خاموش رہنے کا حکم دے دیا گیا اور بات چیت سے روک دیا گیا۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
نماز بندے اور رب کے مابین ایک تعلق کا نام ہے۔ چنانچہ یہ مناسب نہیں کہ نمازی اس حال میں اللہ کے ساتھ مناجات کے علاوہ کسی اور کام میں مشغول ہو۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کر رہے ہیں کہ ابتداے اسلام میں لوگ نماز میں حسب ضرورت بات چیت کر لیا کرتے تھے۔ مثلا کوئی شخص اپنی ضرورت کے بارے میں اپنے پہلو میں موجود شخص سے بات کر لیا کرتا تھا اور نبی ﷺ یہ سب سن رہے ہوتے، لیکن اس سے منع نہ فرماتے۔ لیکن چوں کہ نماز حالت میں بندے کی اللہ سے ہم کلامی میں انہماک، اس لیے مخلوق سے ہم کلام ہونے کی گنجائش باقی نہیں رکھتی، اس لیے اللہ تعالی نے حکم دیا کہ مسلمان نماز کو دوسری آلائشوں سے بچائیں، چپ رہیں اور بات چیت نہ کریں۔ چنانچہ یہ آیت نازل فرمائی: ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ﴾ ”نمازوں کی حفاﻇت کرو بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے لیے باادب کھڑے رہا کرو“۔ چنانچہ صحابۂ کرام کو معلوم ہو گیا کہ انھیں نماز میں کلام کرنے سے منع کیا گیا ہے؛ اس لیے انھوں نے ایسا کرنا چھوڑ دیا۔ رضی اللہ عنہم۔