عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «لقد كان فيما قبلكم من الأمم ناس محدثون، فإن يك في أمتي أحد فإنه عمر».
[صحيح] - [متفق عليه، لكنه عند البخاري من حديث أبي هريرة وعند مسلم من حديث عائشة]
المزيــد ...
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم سے پہلی امتوں میں کچھ الہامی یافتہ لوگ ہوتے تھے، اگر میری امت میں بھی کوئی الہامی یافتہ ہوتا تو وہ عمر ہوتے“۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہمیں امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی منقبت بیان کر رہے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: ”تم سے پہلی امتوں میں کچھ الہامی یافتہ لوگ ہوتے تھے“ مُحَدَّثُون یعنی درست بات کے الہام یافتہ لوگ، ایسے لوگ کہ جو کچھ وہ کہتے وہ بات حق کے موافق ہوتی، یہ اللہ تعالی کی بندے کے لیے ایک کرامت ہے کہ انسان کوئی بات کہے یا کوئی فتوی دے یا کوئی حکم بیان کرے اور بعد میں اس کے متعلق یہ معلوم ہو کہ وہ سچ اور حق کے مطابق بات ہے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لوگوں میں سب سے زیادہ حق کی موافقت کرنے والے تھے۔ ”اگر میری امت میں بھی کوئی“ اس بات میں کوئی پس پیش یا تردد نہیں بلکہ یہ تاکید کے طور پر بیان کی گئی ہے، امت مسلمہ سب سے افضل اور باکمال امت ہے، پس جب سابقہ امتوں میں اس طرح کے لوگ پائے گئے تو بدرجہ اولی اس امت میں پائے جائیں گے۔ انسان جتنا ایمان باللہ میں مضبوط رہے گا، طاعت وفرمانبرداری میں جتنا اتم ہوگا، اتنا ہی اسے اللہ تعالی اس کے ایمان، علم اور عمل صالح کے بقدر حق کی توفیق سے نوازے گا۔ تم دیکھو گے کہ وہ کوئی عمل کرتا رہے گا جس کے متعلق اسے یہ گماہ ہوگا کہ وہ صحیح ہے حالانکہ اس کے پاس اس عمل پر قرآن وحدیث سے کوئی دلیل نہیں ہوگی، لیکن جب تم (اس عمل کے متعلق کسی سے) رجوع کرو گے یا استفسار کرو گے تو تمہیں پتہ چلے گا کہ اس کا وہ عمل قرآن وحدیث کے مطابق ہی ہے، یہ کرامات میں سے ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ ہی کی وہ شخصیت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آپ کے بارے میں کہا کہ اگر کوئی الہام یافتہ شخصیت ہے تو وہ عمر رضی اللہ عنہ کی ہے۔