عن الطُّفَيْلَ بن أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: أنه كان يأتي عبد الله بن عمر، فيَغْدُو معه إلى السوق، قال: فإذا غَدَوْنَا إلى السوق، لم يَمُرَّ عبد الله على سَقَّاطٍ ولا صاحب بَيْعَةٍ ، ولا مسكين، ولا أحد إلا سَلَّمَ عليه، قال الطُفيل: فجئت عبد الله بن عمر يوما، فَاسْتَتْبَعَنِي إلى السوق، فقلت له: ما تصنع بالسوق، وأنت لا تَقِف على البيع، ولا تسأل عن السِّلَعِ، ولا تَسُومُ بها، ولا تجلس في مجالس السوق؟ وأقول: اجلس بنا هاهنا نَتَحَدَثُ، فقال: يا أبا بَطْنٍ -وكان الطفيل ذا بَطْنٍ- إنما نَغْدُو من أجل السلام، فنُسَلِّمُ على من لَقيْنَاهُ.
[صحيح] - [رواه مالك]
المزيــد ...
طفیل بن ابی بن کعب سے روایت ہے کہ وہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آتے تھے، پھر ان کے ساتھ بازار کی طرف نکلتے۔ طفیل نے فرمایا کہ جب ہم بازار جاتے، تو عبداللہ رضی اللہ عنہ کسی چھوٹی یا بڑی دکان والے، کسی مسکین یا کسی اور شخص کے پاس سے گزرتے تو اسے سلام کرتے۔ طفیل رضی اللہ عنہ نے کہا ایک دن میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، وہ مجھے اپنے پیچھے پیچھے بازار لے گئے۔ میں نے ان سے کہا۔ آپ بازار میں کیا کرنے جارہے آپ وہاں نہ کوئی چیز خریدتے ہیں، نہ کسی چیز کے بارے میں پوچھتے ہیں، نہ بھاؤ تاؤ کرتے ہیں اور نہ ہی بازار میں کہیں بیٹھتے ہیں؟ میں تو کہتا ہوں یہیں بیٹھ جائیں باتیں کرتے ہیں۔ تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے ابو البطن –طفیل بڑے پیٹ والے تھے- ہم لوگوں کو سلام کرنے کی غرض سے بازار جاتے ہیں، کہ جس سے ملیں اسے سلام کریں۔
[صحیح] - [اسے امام مالک نے روایت کیا ہے۔]
طفیل بن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ وعن ابیہ ہمیشہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس جاتے تھے، پھر ان کے ساتھ بازار جاتے۔ طفیل فرماتے ہیں کہ جب ہم بازار میں داخل ہوتے تو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کسی بساطی چیز بیچنے والے کے پاس سے گزرتے۔ بیاع السقاط سے مراد ہے ردِّی وُدِّی بیچنے والا۔ ”ولا صاحب بَيْعَةٍ“ اس سے مراد مہنگی اور نفیس اشیاء بیچنے والا۔ ”ولا مسكين ولا أحد إلا سلَّم عليه“ یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہما جس سے ملتے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، امیر ہو یا غریب، ہر ایک کو سلام کرتے۔ طفیل رضی اللہ عنہ وعن ابیہ نے کہا ”فجئت عبد الله ابن عمر يوماً“ یعنی میں کسی کام کے لیے ان کے پاس آیا تو انہوں نے بازار جانے کے لیے مجھے اپنے پیچھے آنے کو کہا۔ میں نے ان سے کہا: ”ما تصنع بالسوق وأنت لا تقِف على البَيع“ یعنی آپ بازار جا کر کوئی چیز بیچتے یا خریدتے نہیں، بلکہ سامان کے بارے میں پوچھتے بھی نہیں اور نہ ہی لوگوں کے ساتھ بھاؤ تاؤ کرتے ہیں اور نہ کوئی اور ایسا کام کرتے ہیں جو بازاروں میں ہوتے ہیں! جب آپ کے پاس بازار لے جانے والا کوئی سبب نہیں ہے تو پھر جانے کا فائدہ ہی کیا جب کہ آپ کو بازار جانے کی کوئی ضرورت بھی تو نہیں ہے؟! ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا اے بڑے پیٹ والے – راوی کا بیان ہے کہ طفیل کا پیٹ بڑا تھا – یعنی طفیل کا پیٹ ان کے سینے کے برابر نہیں تھا، بلکہ اس سے بڑھا ہوا تھا۔ ”إنما نَغْدُو من أجل السلام ، فنسلِّم على من لقيناه“ یعنی بازار جانے کا مقصد کوئی چیز خریدنا یا وہاں بیٹھنا نہیں، بلکہ سلام کرکے نیکیاں کمانا ہے۔ یہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہما کا لوگوں میں سلام پھیلا کر سنت پر عمل کرنے کی حرص تھی۔ اس لیے کہ انہیں یہ علم تھا کہ یہ تو ٹھنڈی غنیمت (یعنی بلا تعب و مشقت ثواب پانا) ہے، مختصر کلمات ہیں جو انسان پر کچھ بھی گراں نہیں۔ اس میں بہت زیادہ خیر ہے۔