عن عائشة رضي الله عنها مرفوعًا: «إِذَا أَرَادَ اللهُ بِالأمِيرِ خَيرًا، جَعَلَ لَهُ وَزِيرَ صِدقٍ، إِنْ نَسِيَ ذَكَّرَهُ، وَإِنْ ذَكَرَ أَعَانَهُ، وَإِذَا أَرَادَ بِهِ غَيرَ ذَلِكَ جَعَلَ لَهُ وَزِيرَ سُوءٍ، إِنْ نَسِيَ لَمْ يُذَكِّرهُ، وَإِنْ ذَكَرَ لَمْ يُعِنْهُ».
[صحيح] - [رواه أبو داود]
المزيــد ...
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ کسی حاکم کے ساتھ خیر کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُسے راست باز (خیر خواہ) وزیر عطا کر دیتا ہے۔ وہ اگر بُھولتا ہےتو وہ (وزیر) اُسے یاد کرا دیتا ہے۔ اور اگر حاکم کو یاد ہو تو وه اس کی مدد کرتا ہے۔ اور جب اللہ اس کے ساتھ بھلائی کے علاوہ كسی اور بات (برائی) کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُس کے لیے بُرا وزیر مقرر کر دیتا ہے۔ اگر وہ بھول جائے تو اسے یاد نہیں کراتا، اور اگر اسے یاد ہو تو اُس کی مدد نہیں کرتا“۔
[صحیح] - [اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ کسی حاکم کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے“۔ اس حدیث میں ارادے سے مراد کونی و قدری ارادہ ہے۔ اسی لیے اس میں خیر و شر دونوں ہی اقسام کے ساتھ تعلق کا ذکر ہوا ہے؛ کیونکہ اللہ اسے کبھی پسند کرتا ہے اور کبھی ناپسند کرتا ہے۔ یہ ارادہ اپنی وسعت کے ذریعے شرعی ارادے کو بھی شامل ہے جسے اللہ پسند کرتا ہے۔ حکمرانوں میں سے جسے راست باز و خیر خواہ وزیر مل جائے اس کو ملنے والی اس خیر کی تفسیر دونوں جہانوں کی بھلائی کی توفیق ملنے سے کی گئی ہے، اسی طرح اس خیر کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد جنت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "اللہ راست باز وزیر عطا کر دیتا ہے۔" یعنی جو قول و فعل اور ظاہر و باطن میں سچا ہوتا ہے۔ وزیر کی اضافت سچ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ صحبت وغیرہ میں سچائی ہی بنیاد ہوتی ہے۔ ”اگر وہ بھول جائے“۔ یعنی وہ امیراگر اپنی کسی ضرورت کی بات کو بھول جائے – اور بھولنا انسان کی فطرت ہے - ، یا کسی شرعی حکم یا مظلوم کے معاملے یا رعیت کے مفاد کا خیال کرنے سے بھٹک جائے تو ”وہ اس کو یاد دہانی کرا دیتا ہے“۔ یعنی یہ سچا وزیر اسے یاد کرا دیتا ہے اور اس کی راہنمائی کرتا ہے۔ اگر حاکم کو وہ یاد ہو تو پھر رائے اور قول و فعل کے ذریعے سے اس کی مدد کرتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر اللہ کا اس کے علاوہ کسی اور شے کا ارادہ ہو“۔ یعنی خیر کے بجائے کسی اور شے کا ارادہ ہو جیسے کہ شر کا ارادہ ہو۔ آپ ﷺ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اس کو بیان کیا تا کہ اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ شر سے اجتناب کرنے پر ابھارا جا رہا ہے۔ کیونکہ جب آپ ﷺ اس کی قباحت اور شناعت کی وجہ سے اس کے نام یعنی شر کے ذکر سے بھی اجتناب کر رہے ہیں تو اس کے مدلول سے تو بطریق اولی اجتناب کرنا چاہیے۔ خیر کے لئے اسم اشارہ "ذلک" استعمال کیا گیا جو کہ بعید کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ اس میں خیر کی تعظیم اور اس کے علو مرتبت کا بیان ہے اور اسے پانے اورحاصل کرنے پر ابھارا گیا ہے۔ خیر کے علاوہ کے ارادہ کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ”اللہ اس کے لیے برا وزیر مقرر کر دے گا“۔ یعنی ایسا وزیر جو قول و فعل میں برا ہو گا۔ یعنی سابق الذکر وزیر کا الٹا ہو گا۔ ”اگر وہ بھول جائے“۔ یعنی کسی ضروری شے کو چھوڑ دے تو ”وہ اسے یاد نہیں کراتا“ کیونکہ اس کے پاس وہ قلبی نور نہیں ہوتا جو اسے اس کام پر ابھارے۔ ”اور اگر اسے یاد ہو تو وہ اس کی مدد نہیں کرتا“ بلکہ وہ اپنی فطری برائی اور بد کرداری کی وجہ سے اسے اس سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔