عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، قال: دخلت على عائشة فقلت: ألا تحدثيني عن مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ قالت: بلى، ثَقُلَ النبي صلى الله عليه وسلم فقال: «أصلى الناس؟» قلنا: لا، هم ينتظرونك، قال: «ضعوا لي ماء في الْمِخْضَبِ ». قالت: ففعلنا، فاغتسل، فذهب لِيَنُوءَ فأغمي عليه، ثم أفاق، فقال صلى الله عليه وسلم : «أصلى الناس؟» قلنا: لا، هم ينتظرونك يا رسول الله، قال: «ضعوا لي ماء في الْمِخْضَبِ » قالت: فقعد فاغتسل، ثم ذهب لينوء فأغمي عليه، ثم أفاق، فقال: «أصلى الناس؟» قلنا: لا، هم ينتظرونك يا رسول الله، فقال: «ضعوا لي ماء في الْمِخْضَبِ »، فقعد، فاغتسل، ثم ذهب لِيَنُوءَ فأغمي عليه، ثم أفاق فقال: «أصلى الناس؟» فقلنا: لا، هم ينتظرونك يا رسول الله، والناس عُكُوفٌ في المسجد، ينتظرون النبي عليه السلام لصلاة العشاء الآخرة، فأرسل النبي صلى الله عليه وسلم إلى أبي بكر بأن يصلي بالناس، فأتاه الرسول فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يأمرك أن تصلي بالناس، فقال أبو بكر - وكان رجلا رقيقا -: يا عمر صل بالناس، فقال له عمر: أنت أحق بذلك، فصلى أبو بكر تلك الأيام، ثم إن النبي صلى الله عليه وسلم وجد من نفسه خِفَّةً ، فخرج بين رجلين أحدهما العباس لصلاة الظهر وأبو بكر يصلي بالناس، فلما رآه أبو بكر ذهب ليتأخر، فَأَوْمَأَ إليه النبي صلى الله عليه وسلم بأن لا يتأخر، قال: أجلساني إلى جنبه، فأجلساه إلى جنب أبي بكر، قال: فجعل أبو بكر يصلي وهو يأتم بصلاة النبي صلى الله عليه وسلم ، والناس بصلاة أبي بكر، والنبي صلى الله عليه وسلم قاعد، قال عبيد الله: فدخلت على عبد الله بن عباس فقلت له: ألا أعرض عليك ما حدثتني عائشة عن مرض النبي صلى الله عليه وسلم ، قال: هات، فعرضت عليه حديثها، فما أنكر منه شيئا غير أنه قال: أسمت لك الرجل الذي كان مع العباس قلت: لا، قال: هو علي بن أبي طالب رضي الله عنه .
[صحيح] - [رواه البخاري]
المزيــد ...
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: کیا آپ ہمیں رسول اللہ ﷺ کی بیماری کی حالت نہیں بتائیں گي؟ انھوں نے فرمایا: ہاں ضرور! سن لو۔ آپ ﷺ کا مرض بڑھ گیا، تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ ہم نے عرض کیا: جی نہیں یا رسول اللہ ! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:میرے لیے ایک لگن میں پانی رکھ دو۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہم نے پانی رکھ دیا اور آپ ﷺ نے بیٹھ کر غسل کیا۔ پھر آپ اٹھنے لگے، لیکن بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش آیا، تو پھر آپ نے پوچھا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے۔ ہم نے عرض کیا: نہیں، یا رسول اللہ! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے (پھر) فرمایا: لگن میں میرے لیے پانی رکھ دو۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: ہم نے پھر پانی رکھ دیا اور آپ ﷺ نے بیٹھ کر غسل فرمایا۔ پھر اٹھنے کی کوشش کی، لیکن(دوبارہ) بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش آیا، تو پھر یہی فرمایا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ نہیں یا رسول اللہ ! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا:لگن میں پانی لاؤ اور آپ ﷺ نے بیٹھ کر غسل کیا۔ پھر اٹھنے کی کوشش کی، لیکن پھر بے ہوش ہو گئے۔ پھر جب ہوش آیا، تو آپ ﷺ نے پوچھا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہم نے عرض کیا: نہیں یا رسول اللہ ! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں ۔ لوگ مسجد میں عشاکی نماز کے لیے بیٹھے ہوئے نبی کریم ﷺ کا انتظار کر رہے تھے۔ آخر آپ ﷺ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بھیجا اور حکم فرمایا کہ وہ نماز پڑھا دیں۔ بھیجے ہوئے شخص نے آ کر کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے آپ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے نرم دل انسان تھے۔ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم نماز پڑھاؤ، لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ آپ اس کے زیادہ حق دار ہیں۔ آخر (بیماری) کے دنوں میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھاتے رہے۔ پھر جب نبی کریم ﷺ کو مزاج کچھ ہلکا معلوم ہوا، تو دو مردوں کا سہارا لے کر، جن میں ایک عباس رضی اللہ عنہ تھے، ظہر کی نماز کے لیے گھر سے باہر تشریف لائے۔ اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے۔ جب انھوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا، تو پیچھے ہٹنا چاہا۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے اشارے سے انھیں روکا کہ پیچھے نہ ہٹو! پھر آپ نے ان دونوں مردوں سے فرمایا کہ مجھے ابو بکر کے بازو میں بٹھا دو۔ چنانچہ دونوں نے آپ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بازو میں بٹھا دیا۔ راوی نے کہا: پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں نبی ﷺ کی پیروی کر رہے تھے اور لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی پیروی کررہے تھے۔ نبی ﷺ بیٹھےبیٹھے نماز پڑھ رہے تھے۔ عبید اللہ کہتے ہیں کہ پھر میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی ﷺ کی بیماری کے بارے میں جو حدیث بیان کی ہے کیا میں وہ آپ کو سناؤں؟ انھوں نے فرمایا کہ ضرور سناؤ۔ میں نے یہ حدیث سنا دی، تو انھوں نے کسی بات کا انکار نہیں کیا۔ صرف اتنا کہا کہ کیا عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان صاحب کا نام بھی تم کو بتایا، جو عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے؟ میں نے کہا: نہیں! آپ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ علی رضی اللہ عنہ تھے۔
[صحیح] - [اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ کی اس بیماری کے بعض احوال کا بیان ہوا ہے، جس میں آپ کی وفات ہوئی۔ جب آپ کی بیماری نے شدت اختیارکر لی، تو آپ نے اپنے پاس موجود شخص سے پوچھا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ کہا گیا: نہیں۔ تو آپ نے پانی منگوایا اورغسل کیا، لیکن آپ پر بے ہوشی طاری ہوگئی۔ پھر جب افاقہ ہوا، تو آپ نے یہی سوال دہرایا اور دوبارہ غسل فرمایا، لیکن پھر آپ پر بے ہوشی طاری ہوگئی۔ ایسا آپ نے تین مرتبہ کیا۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کے لیے کہا، مگر انھوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھا دیا؛ کیوں کہ وہ اس کے زیادہ حق دار تھے۔ پھر جب نبی کریم ﷺ کو مزاج کچھ ہلکا معلوم ہوا، توعباس اورعلی رضی اللہ عنہما کے درمیان ہوکر تشریف لائے۔ اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو ظہر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ جب انھوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا تو پیچھے ہٹنا چاہا۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے انھیں اپنی جگہ پر رہنے کا حکم دیا اور ان کے بغل میں بیٹھ گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں نبی ﷺ کی پیروی کر رہے تھے اور لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی پیروی کررہے تھے۔