عَنْ كَثِيرِ بن زِيَاد، قال: حدثتني الأزْدِيَّة يعني مُسَّةَ قالت: حَجَجْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَقُلْتُ: يَا أُمَّ المؤْمِنِين، إِنَّ سَمُرَةَ بن جندب يَأْمُرُ النِّسَاءَ يَقْضِينَ صَلَاةَ الْمَحِيضِ فَقَالَتْ: «لَا يَقْضِينَ كَانَتِ المَرْأَةُ من نِسَاءِ النبي صلى الله عليه وسلم تَقْعُدُ فِي النِّفَاسِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً لَا يَأْمُرُهَا النبي صلى الله عليه وسلم بِقَضَاءِ صَلَاةِ النِّفَاسِ» وفي رواية: و«كنا نطلي على وُجُوهنا بِالوَرْسِ -تعني- من الكَلَف».
[حسن] - [رواه أبو داود والترمذي والدارمي وأحمد]
المزيــد ...

كثیر بن زیاد سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے مُسّہ ازدیہ نے بیان کیا: میں حج کو گئی تو ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں حاضر ہوئی۔ میں نے کہا: اے ام المومنین! سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ عورتوں کو حیض کی نمازیں قضا کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا: وہ قضا نہیں کریں گی۔ نبی ﷺ کی (رشتہ دار) خواتین میں سے کوئی عورت چالیس دن تک نفاس میں رہتی اور آپ ﷺ اسے مدتِ نفاس کی نمازوں کو قضا کرنے کا حکم نہیں دیتے تھے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ہم جھائیوں کو دور کرنے کے لیے اپنے چہروں پر وَرس (ایک قسم کا پودا جو رنگائی کے کام ميں لايا جاتا ہے ) ملا کرتی تھیں۔
حَسَنْ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔

شرح

ہماری ماں ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عظیم القدر صحابی سمره بن جندب رضی اللہ عنہ کے فتوے کی اصلاح فرمائی جب انہوں نے عورتوں پر لازم قرار دیا کہ وہ مدتِ حیض میں چھوٹ جانے والی نمازوں کی قضا کریں۔ تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: وہ قضا نہیں کریں گی، یعنی نماز کی قضا نہیں کریں گی۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے اس فتوے کی علت بیان کرتے ہوئے فرمایا: نبی ﷺ کی رشتہ دار خواتین میں سے کوئی عورت چالیس دن تک نفاس میں رہتی اور آپ ﷺ اسے مدتِ نفاس کی نمازوں کو قضا کرنے کا حکم نہیں دیتے تھے۔ یہاں ”نساء النبی"c2">“ سے مراد آپ ﷺ کی بیویوں کے علاوہ آپ ﷺ کی بیٹیاں اور قریبی رشتہ دار خواتین ہیں۔ ”النساء"c2">“ کا لفظ بیویوں سے عام ہے کیونکہ اس کے تحت بیٹیاں اور باقی رشتہ دار خواتین آتی ہیں۔ یہاں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے قول: ”نفاس میں رہتی ...الخ"c2">“ کی وجہ سے ایک اشکال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ مسہ ازدیہ نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے حالت ِحیض میں نماز پڑھنے کے حکم کے بارے میں پوچھا تھا اور انہیں بتلايا تھا کہ سمرۃ رضی اللہ عنہ ان کی قضا کا حکم دیتے ہیں، جب کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نفاس والی عورتوں کی نماز کے بارے میں جواب دیا۔ اس کا جواب دو طرح سے دیا جاسکتا ہے: اول: جواب کے قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں حیض کے لفظ سے نفاس مراد ہے۔ دوم: ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے حالتِ نفاس کی نماز کے بارے میں جواب دیا جو مدت میں حیض سے کم ہوتا ہے۔ کیوں کہ حیض دورانِ سال بارہ دفعہ آتا ہے، جب کہ نفاس اس طرح نہیں ہوتا بلکہ وہ اس کی بنسبت بہت ہی کم ہوتا ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ جب شارع نے حالتِ نفاس میں نماز کو معاف کر دیا جو بار بار نہیں آتا تو حالت حیض کی نمازوں کو کیسے معاف نہیں کرے گا جو بار بار آتا ہے؟!۔ واللہ اعلم۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا قول: ”وكنا نطلي على وجوهنا"c2">“ یعنی ہم ملتی تھیں۔ ”الطلی"c2">“ کا معنی تیل ملنا آتا ہے۔ ”الورس"c2">“ ایک زرد رنگ کا پودا ہے جس سے چہرے پر ملنے کی کریم بنائی جاتی ہے۔ ”تعني من الكَلَف“ الکلف سے مراد وہ رنگ ہے جو سیاہی اور سرخی کے درميان ہوتا ہے یعنی سرخی مائل مٹیالی رنگت يا کوئی اور چيز جو چہرے پر ظاہر ہوجاتی ہے۔

ترجمہ: انگریزی زبان فرانسیسی زبان اسپینی ترکی زبان بوسنیائی زبان بنگالی زبان چینی زبان فارسی زبان تجالوج ہندوستانی
ترجمہ دیکھیں
مزید ۔ ۔ ۔