عن عائشة رضي الله عنها قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لا نَذْكُرُ إلا الحج، حتى جِئْنَا سَرِف فَطَمِثْتُ، فدخل عليَّ رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا أبْكِي، فقال: «ما يُبْكِيك؟» فقلت: والله، لوَدِدْتُ أنَّي لم أكُن خرجت العَام، قال: «ما لك؟ لَعَلَّكِ نَفِسْتِ؟» قلت: نعم، قال: «هذا شيء كَتَبه الله على بنات آدم، افعلي ما يفعل الحاج غير أن لا تَطُوفي بالبيت حتى تَطْهُري» قالت: فلمَّا قدمت مكة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لأصحابه «اجْعَلُوها عُمرة» فأحَلَّ الناس إلا من كان معه الهَدْي، قالت: فكان الهَدْي مع النبي صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر وذَوِي اليَسَارَة، ثم أهَلُّوا حين راحُوا، قالت: فلمَّا كان يوم النَّحر طَهَرْت، فأمَرَني رسول الله صلى الله عليه وسلم فَأَفَضْتُ، قالت: فَأُتِيَنَا بِلَحم بَقَر، فقلت: ما هذا؟ فقالوا: أَهْدَى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن نِسَائه البقر، فلمَّا كانت ليلة الحَصْبَةِ، قلت: يا رسول الله، يرجع الناس بحجة وعُمرة وأرجع بِحَجَّة؟ قالت: فأمر عبد الرحمن بن أبي بكر، فَأَرْدَفَنِي على جَمَلِه، قالت: فإني لأذْكُر، وأنا جَارية حَدِيثَةُ السِّن، أَنْعَسُ فيُصِيب وجْهِي مُؤْخِرَة الرَّحْل، حتى جِئْنَا إلى التَّنْعِيم، فَأَهْلَلْتُ منها بِعُمْرة؛ جزاء بِعُمْرَة الناس التي اعْتَمَرُوا.
[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...
عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺکے ساتھ نکلے، ہمارا موضوع سخن حج ہی تھا۔ جب سرف کے مقام پر پہنچے، تو میرے ایام شروع ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺمیرے پاس آئے جبکہ میں رو رہی تھی۔ آپ ﷺ نے پو چھا: تمھیں کونسی بات رلا رہی ہے؟ میں نے جواب دیا: اللہ کی قسم! کاش میں اس سال حج کے لیے نہ نکلی ہوتی! آپ نے پو چھا: تمھارے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ کہیں تمھیں ایام تو شروع نہیں ہو گئے؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ نے فر مایا: یہ چیز تو اللہ نے آدم علیہ السلام کی بیٹیوں کے لیے مقدر کر دی ہے۔ تم تمام کام ویسے کرتی جاؤ جیسے حاجی کریں، مگر جب تک پاک نہ ہو جاؤ، بیت اللہ کا طواف نہ کرو۔ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: جب میں مکہ پہنچی، تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا: تم اسے (حج کی نیت کو بدل کر) عمرہ کر لو۔ چنانچہ جن کے پاس قربانی کے جانور تھے، ان کے علاوہ تمام لوگ حلال ہو گئے۔ قربانی کے جانور صرف رسول اللہ ﷺ، ابو بکر، عمر اور بعض اصحاب ثروت صحابہ ہی کے پاس تھیں۔ جب وہ (ترویہ کے دن منی کی طرف) چلے تو حج کا تلبیہ پکارا۔ اور جب قربانی کا دن آیا، تو میں پاک ہو گئی۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے مجھے حکم دیا اور میں نے طواف کر لیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہمارے پاس گائے کا گوشت لا یا گیا، میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ تو جواب دیا گیا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قر بانی دی ہے۔ جب محصب (مینا سے روانگی) کی رات آئی، تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! لوگ حج اور عمرہ دونوں کر کے لوٹیں اور میں صرف حج کر کے لوٹوں؟ تو آپ ﷺنے عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا اور انھوں نے مجھے اپنے اونٹ پر ساتھ بٹھایا۔ وہ کہتی ہیں: مجھے یا د پڑتا ہے کہ میں (اس وقت) نو عمر لڑکی تھی، (راستے میں) میں اونگھ رہی تھی اور میرا منہ (بار بار) کجاوے کی پچھلی لکڑی سے ٹکرا رہا تھا، حتیٰ کہ ہم تنعیم پہنچ گئے۔ پھر میں نے وہاں سے اس عمرے کے بدلے جو لوگوں نے کیا تھا، عمرے کا تلبیہ پکارا۔
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا مفہوم: ”ہم رسول اللہ ﷺکے ساتھ نکلے۔ ہمارا موضوع سخن حج ہی تھا“ یعنی مدینہ سے۔ آپ ﷺ مدینے میں ظہر کی نماز چار رکعت پڑھنے کے بعد نکلے تھے۔ سنیچر کا دن تھا اور ذوالقعدہ کے پانچ دن باقی تھے۔ ذوالحلیفہ پہنچ کر آپ نے عصر کی نماز دو رکعت پڑھی تھی۔ ”ہم حج کا ہی ذکر کر رہے تھے“ اور ایک روایت میں ہے: ”ہمارا ارادہ صرف حج کا تھا“ جب کہ ان سے ایک اور صحیح حدیث میں اس طرح آیا ہے: ”ہم میں سے کچھ عمرہ کا تلبیہ کہہ رہے تھے اور کچھ حج کا اور میں عمرہ کا تلبیہ کہہ رہی تھی“، اس طرح ان کے یہ اقوال: ”ہم حج کا ہی ذکر کر رہے تھے“ اور ”ہمارا ارادہ صرف حج کا تھا“ مندرجہ ذیل احوال میں سے کسی ایک حالت سے خالی نہیں: پہلی حالت: اصل میں اس سے ان کی مراد فریضۂ حج ہے۔ اس قسم کا بیان نہیں جس کا انھوں نے احرام باندھا تھا۔ دوسری حالت: اس سے ان کی مراد گھر سے نکلتے وقت اور میقات پر پہنچ کر احرام باندھنے سے پہلے تک کا حال بیان کرنا ہے۔ تیسری حالت: ان کے علاوہ دیگر صحابہ کا حال بیان کرنا مقصود ہو گا۔ خود ان کے بارے میں نہیں۔ ”یہاں تک کہ ہم سرف کے مقام تک پہنچ گئے“ یہ مکہ کے قریب ایک جگہ ہے۔ ”فَطَمِثْتُ“ یعنی وہ حائضہ ہو گئیں۔ ”رسول اللہ ﷺ میرے پاس آئے، تو میں رو رہی تھی۔ آپ ﷺ نے پو چھا: تمھیں کون سی بات رلا رہی ہے؟ میں نے جواب دیا: اللہ کی قسم! کاش میں اس سال حج کے لیے نہ نکلتی!“ یعنی جب انھیں حیض آ گیا، تو وہ رونے لگیں اور یہ خواہش کرنے لگیں کہ کاش وہ اس سال حج کا ارادہ نہ کرتیں! کیوں کہ ان کا یہ خیال تھا کہ وہ حائضہ ہونے کی وجہ سے حج کے تمام اعمال سے منقطع ہو جائیں گی اور اس وجہ سے بہت بڑی خیر سے محروم رہ جائیں گی۔ ”فرمایا: تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ کہیں ایام تو شروع نہیں ہو گئے؟“ یعنی حائضہ تو نہیں ہو گئی؟ میں نے کہا: ہاں! آپﷺ نے فرمایا: ”یہ چیز تو اللہ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے مقدر کر دی ہے“ یعنی حیض ایک طے شدہ امر ہے اور اسے اللہ تعالیٰ نے بنات آدم کے لیے لکھ دیا ہے، یہ نہ تیرے ساتھ خاص ہے اور نہ تیرے ہاتھ میں کچھ ہے۔ اس لیے رونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ”تم تمام کام ویسے کرتی جاؤ، جیسے (تمام ) حاجی کریں، مگر جب تک پاک نہ ہو جاؤ، بیت اللہ کا طواف نہ کرو“ رسول اللہ ﷺ نے انھیں بتادیا کہ حیض مناسک حج کی ادائیگی میں رکاوٹ نہیں اور نہ ہی احرام کے لیے مخل ہے۔ اس لیے دیگر حاجی جو کچھ کریں، تم بھی کرتی جاؤ۔ جیسے وقوف عرفہ ومنیٰ، وقوف مزدلفہ اور رمی جمار وغیرہ۔ طواف کے علاوہ دیگر تمام ارکانِ حج ادا کر سکتی ہیں۔ جب تک پاک ہونے کے بعد غسل نہیں کر لیتیں، طواف کرنے سے اجتناب کریں گی۔ ”عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب میں مکہ پہنچی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ تم اسے (حج کی نیت کو بدل کر) عمرہ کر لو“ یعنی نبی کریم ﷺ جب مکہ پہنچے، تو جو لوگ اپنے ساتھ قربانی نہیں لائے تھے، انھیں حکم دیا کہ وہ اپنے احرام کو عمرے کا بنا لیں؛ چنانچہ جس نے حج کے لیےاحرام باندھا تھا، لیکن ہدی کا جانور ساتھ نہیں لایا تھا، وہ اپنے احرام کو بدل کر عمرہ کا احرام کر لے۔ وہ طواف کرے، سعی کرے، بال کٹوائے اور حلال ہو جائے۔ صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں ہے: ”رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ جس کے پاس قربانی نہیں ہے، وہ حلال ہو جائے۔ ۔ہم نے کہا کہ کس طرح حلال ہو؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: مکمل حلال۔ ”عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جن کے پاس قربانی کے جانور تھے، ان کے علاوہ تمام صحابہ حلال ہو گئے۔ اور قربانی کا جانور صرف رسول اللہ ﷺ، ابوبکر، عمر اور بعض اصحاب ثروت صحابہ ہی کے پاس تھیں“ یعنی جن کے پاس قربانیاں نہیں تھیں، وہ طواف، سعی اور بال کٹوانے کے بعد حلال ہو گئے۔ جب کہ نبی کریم ﷺ، ابوبکر رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ اور وہ صحابہ جنھیں اللہ تعالیٰ نے فراوانی سے نوازا تھا، حالت احرام میں باقی رہ گئے؛ کیوں کہ وہ اپنے ساتھ قربانیاں لائے تھے اور قربانی لانے والے کے لیے عمرہ کے بعد احرام اتارنے کی اجازت نہیں ہے۔ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ”اگر میں قربانی لے کر نہ آیا ہوتا، تو میں بھی وہی کرتا، جو تمھیں کرنے کا حکم دیا ہے“۔ ”جب وہ (ترویہ کے دن منی کی طرف) چلے تو حج کا تلبیہ پکارا“ یعنی جن لوگوں نے طواف کر لیا، سعی کر لی اور بال کٹوا لیے، انھوں نے ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ کو یعنی ترویہ کے دن منی کی طرف نکلتے وقت حج کا تلبیہ پکارا۔ ”عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب قر بانی کا دن آیا، تو میں پاک ہو گئی“ یعنی قربانی کے دن حیض سے پاک ہو گئیں۔ یہ دس ذی الحجہ کا دن تھا۔ اس دن کا نام ”یوم نحر“ قربانیوں کو نحر کرنے کی وجہ سے رکھا گیا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا، تو میں نے طواف افاضہ کر لیا“ یعنی یوم نحر کو جب حیض سے پاک ہوئیں، تو نبی کریم ﷺ نے انھیں طواف افاضہ کرنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ اس سے فارغ ہو گئیں۔ ”ہمارے پاس گائے کا گوشت لایا گیا، تو میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟“ یعنی ان کے اور ان کے ساتھ موجود دیگر عورتوں کے لیے گائے کا گوشت بھیجا گیا، تو انھوں نے اس کے بارے میں پوچھا۔ ”جواب دیا گیا کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺنے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی دی ہے“ یعنی نبی کریم ﷺ نے اپنی ہر بیوی کی طرف سے ایک ایک گائے قربانی کی ہے۔ ”جب محصب کی رات آئی“ یعنی جب منیٰ سے روانگی کی رات آئی۔ یہ ایام تشریق کے بعد والی رات ہے۔ اسے یہ نام اس لیے دیا گیا، کیوں کہ حجاج منی سے نکل کر محصب آکر رات گزارتے ہیں۔ صحیح بخاری میں ہے: رسول اللہﷺ محصب کی رات کچھ دیر سوئے اور سواری پر بیٹھ کر بیت اللہ آئے اور طواف کیا۔ ”میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! لوگ حج اور عمرہ (دونوں) کر کے لو ٹیں گے اور میں صرف حج کر کے لوٹوں گی؟“ یعنی وہ مستقل حج اور مستقل عمرہ کر کے لوٹیں گے؛ کیوں کہ انھوں نے حج تمتع کیا تھا اور میں الگ سے عمرہ کیے بغیر ہی لوٹ جاؤں گی؛ کیوں کہ وہ قارن تھیں اور حج قران میں عمرہ ساتھ ہی ہوتا ہے۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے: ”لوگ دو اجر لے کر لوٹیں اور میں ایک ہی اجر کے ساتھ لوٹوں؟“، وہ چاہتی تھیں کہ انھیں بھی حج کے علاوہ الگ سے عمرہ کی سعادت نصیب ہو، جیسے دیگر امہات المؤمنین اور صحابہ کو نصیب ہوئی تھی، جنھوں نے اپنے حج کے احرام کو عمرہ کے کے احرام میں بدل لیا، عمرہ مکمل کر کے یوم الترویہ سے پہلے حلال ہو گئے، پھر ترویہ کے دن مکہ سے حج کا احرام باندھا۔ اس طرح انھیں الگ الگ حج اور عمرہ ادا کرنے کا موقع مل گیا۔ جب کہ عائشہ رضی اللہ عنھا کا عمرہ حج قران ہی میں شامل تھا۔ چنانچہ واپسی کے دن رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: تمھارا طواف حج اور عمرہ دونوں کو کافی ہے۔ یعنی دونوں مکمل ہو گئے ہیں اور یہ تمہارے لیے کافی ہے۔ لیکن انھوں نے ماننے سے انکار کر دیا اور دیگر لوگوں کی طرح الگ عمرہ کرنے کی خواہش پر مصر رہیں۔ ”وہ کہتی ہیں: آپ ﷺ نے عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کو حکم دیا اور انھوں نے مجھے اپنے اونٹ پر ساتھ بٹھایا“ یعنی نبی کریم ﷺ نے میرے بھائی عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ وہ مجھے تنعیم لے جائیں؛ تاکہ میں وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ کر آؤں؛ تاکہ باقی لوگوں کی طرح مجھے بھی الگ عمرے کی سعادت نصیب ہوجائے۔ چنانچہ انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنے پیچھے سوار کر لیا جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں ہے۔ ”وہ کہتی ہیں: مجھے یاد پڑتا ہے، میں اس وقت نو عمر لڑکی تھی، راستے میں اونگھ رہی تھی اور میرا منہ بار بار کجاوے کی پچھلی لکڑی سے ٹکراتا تھا“ یعنی جب عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنے پیچھے سوار کیا اور تنعیم کی طرف چلے تو راستے میں شدید اونگھ کی وجہ سے ان کا سر ادھر ادھر گرتا اور کجاوے سے ٹکرا جاتا۔ ”حتیٰ کہ ہم تنعیم پہنچ گئے۔ پھر میں نے وہاں سے اس عمرے کے بدلے جو لوگوں نے کیا تھا عمرہ کا احرام باندھا“ یعنی جب وہ مقام تنعیم پہنچ گئے، تو انھوں نے وہاں سے مستقل عمرہ کے لیے احرام باندھا، اس عمرہ کے بدلے میں جو لوگ پہلے ہی کر چکے تھے۔ صحیحین کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان کے عمرے کی ادائیگی کے بعد فرمایا: ”یہ تمھارے اس عمرے کے بدلے میں ہے“ یعنی یہ عمرہ اس عمرے کی جگہ ہے، جو تم حج سے الگ مستقل طور پر کرنا چاہتی تھی اور حیض کی وجہ سے کر نہیں پائی تھی۔