عن لقيط بن صبرة رضي الله عنه قال: كنتُ وافد بني المنتفِق -أو في وفد بني المنتفِق- إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال: فلمَّا قدِمْنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فلم نُصادفْه في منزله، وصادفنا عائشة أم المؤمنين، قال: فأمرَتْ لنا بخَزِيرَةٍ فصُنِعت لنا، قال: وأتينا بقِنَاع (ولم يقل قتيبة: "القناع". والقناع: الطبق فيه تمر)، ثم جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «هل أصبتم شيئا؟ -أو أُمِر لكم بشيء؟-» قال: قلنا: نعم، يا رسول الله.
قال: فبينا نحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم جلوس، إذ دَفَعَ الراعي غَنَمَهُ إلى المُرَاح، ومعه سَخْلَةٌ تَيْعَر، فقال: «ما ولدت يا فلان؟»، قال: بهْمَة، قال: «فاذبح لنا مكانها شاة»، ثم قال: "لا تحْسَبنَّ، -ولم يقل: لا تحسِبن- أنا من أجلك ذبحناها، لنا غنم مائة لا نريد أن تزيد، فإذا ولد الراعي بهمة، ذبحنا مكانها شاة".
قال: قلت: يا رسول الله، إن لي امرأة وإن في لسانها شيئا -يعني البَذَاء-؟ قال: «فَطَلِّقْها إذًا»، قال: قلت: يا رسول الله إن لها صُحْبَة، ولي منها ولد، قال: "فمرها -يقول: عظها- فإن يك فيها خير فستفعل، ولا تضرب ظَعِيَنَتَك كضربك أُمَيّتَكَ".
فقلت: يا رسول الله، أخبرني عن الوضوء؟ قال: « أَسْبِغ الوضوء، وَخَلِّلْ بين الأصابع، وَبَالغْ في الاسْتِنْشَاق إلا أن تكون صائما».
[صحيح] - [رواه أبو داود والترمذي والنسائي مختصرًا وابن ماجه وأحمد والدارمي]
المزيــد ...
لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بنی منتفق کے وفد کا سردار بن کر یا بنی منتفق کے وفد میں شریک ہو کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا۔ جب ہم آپ ﷺ کے پاس آئے، تو آپ گھر میں نہیں ملے۔ ہمیں صرف ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ملیں۔ انھوں نے ہمارے لیے خزیر۱ (ایک قسم کا کھانا) تیار کرنے کا حکم کیا۔ وہ تیار کیا گیا۔ ہمارے سامنے تھالی لائی گئی۔ (قتیبہ نے اپنی روایت میں "قناع" کا لفظ نہیں کہا ہے۔ "قناع" اس تھالی و طبق کو کہتے ہیں جس میں کھجور رکھی ہوئی ہو) پھر رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور پوچھا: ”کیا تم لوگوں نے کچھ کھایا ہے؟ یا تمھارے لیے کسی چیز کا حکم دیا گیا؟“ ہم نے جواب دیا: ہاں، اے اللہ کے رسول!
ہم لوگ آپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ یکایک چرواہا اپنی بکریاں باڑے کی طرف لے کر چلا۔ اس کے ساتھ ایک بکری کا بچہ تھا، جو ممیا رہا تھا۔ آپ ﷺ نے(اس سے) پوچھا:”اے فلاں! کیا پیدا ہوا (نر یا مادہ)؟“ اس نے جواب دیا: مادہ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:”تو اس کی جگہ پر ہمارے لیے ایک بکری ذبح کرو“۔ پھر (لقیط سے) فرمایا: یہ بالکل نہ سمجھنا -لقیط رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہاں لفظ ”تحْسَبنَّ“ سین کے فتحہ (زبر) کے ساتھ ادا فرمایا، کسرہ (زیر) کے ساتھ نہیں-کہ ہم نے اسے تمھارے لیے ذبح کیا ہے؛ بلکہ (بات یہ ہے کہ) ہمارے پاس سو بکریاں ہیں۔ ہم انھیں بڑھانا نہیں چاہتے۔ اس لیے جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو ہم اس کی جگہ ایک بکری ذبح کر ڈالتے ہیں۔
لقیط رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری ایک بیوی ہے، جو زبان دراز ہے(میں کیا کروں)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تب تو تم اسے طلاق دے دو“۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایک مدت تک میرا اس کا ساتھ رہا، اس سے میری اولاد بھی ہے!! آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو اسے تم نصیحت کرو، اگر اس میں بھلائی ہے، تو تمھاری اطاعت کرے گی اور تم اپنی عورت کو اس طرح نہ مارو، جس طرح اپنی لونڈی کو مارتے ہو“۔
پھر میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے وضو کے بارے میں بتائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وضو خوب کامل کیا کرو، انگلیوں میں خلال کیاکرو اور ناک میں پانی اچھی طرح پہنچاؤ، الا یہ کہ تم روزے سے ہو"۔
[صحیح] - [اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
جلیل القدر صحابی لقیط بن صبرۃ رضی اللہ عنہ اس حدیث میں اس بات کی وضاحت فرمارہے ہیں کہ وہ سردار کی حیثیت سے اپنی قوم کےایک وفد کو لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں تشریف لائے۔ وفود کا یہ معمول تھا کہ وہ نبی ﷺ سے اپنے اہمیت کے حامل اور غیر واضح مسائل دریافت کرتے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا نے ان کے لیے شوربا( جس میں گوشت کو ابالے جانے کے بعد آٹا یا چاول ڈالا جاتا ہے) اور کھجور پیش کیے۔ (اسی دوران) نبی ﷺ کے چرواہے پر اس وفد کی نظر پڑی، جس کے ساتھ بکری کا ایک چھوٹا نومولود بچہ تھا۔ آپ ﷺ نے اس چرواہے کو حکم دیا کہ ایک بکری ذبح کردے اور وفد سے اس بات کی وضاحت فرمادی کہ آپ نے اس وفد کی خاطر اس بکری کو ذبح نہیں کروایا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ یہ گمان کربیٹھیں کہ آپ نے پرتکلف مہمان نوازی کا اہتمام فرمایا ہے۔ اس لیے آپ نے اس امکانی خیال کو دور فرمادیا۔ صحابی رسول ﷺ کے سوالات میں سے ایک سوال یہ تھا کہ بدزبان و بدگو بیوی کے ساتھ کس طرح برتاؤ کیا جائے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر اس بیوی میں کچھ خیر و بھلائی موجود ہوتو اس کے حق میں وعظ و نصیحت کارگر ہوجائے گی؛ ورنہ طلاق ہی اس کا حل ہے۔ نیز آپ نے انھیں اس بات کا بھی حکم دیا کہ اپنی بیوی کو اس طرح نہ ماریں پیٹیں، جس طرح لونڈی کو مارا جاتا ہے۔ نیز صحابی رسول ﷺ نے آپ سے وضو کے بارے میں استفسار کیا، تو آپ نے واضح فرمادیا کہ کامل وضو کرنا واجب ہے۔ یعنی وضو میں دھوئے جانے والے اعضا میں سے ہر عضو کو کامل طریقے سے دھویا جائے۔ مسح کامل طریقے سے کیا جائےاور انگلیوں کے درمیان خلال کی سنت کو ملحوظ رکھا جائے۔ یہ سب اس لیے تاکہ وضو کے تمام اعضا تک پانی پہنچ جانے کا یقین ہو جائےاور اگر خلال ہی کے ذریعہ پانی انگلیوں کے درمیان پہنچ سکتا ہو تو کامل طریقے سے وضو کا پانی پہنچانا واجب ہے۔ پھر آپ ﷺ نے حد درجہ ناک میں پانی چڑھانے کی سنت کو واضح فرماتے ہوئے روزے دار کو اس خدشے کے ساتھ مستثنی فرمادیا کہ کہیں اس کے پیٹ میں پانی داخل نہ ہوجائے اور اس عمل کے سنت ہونے اور واجب نہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ صرف عدم روزہ ہی میں اس کو پسندیدہ قرار دیا گیا۔