عن أبي موسى الأشعري رضي الله عنه مرفوعاً: «ليس أحد، أو: ليس شيء أصبر على أذًى سمعَه مِن الله، إنَّهم لَيَدْعُون له ولدًا، وإنَّه ليُعافِيهم ويرزُقُهم».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”کوئی شخص یا کوئی چیز، ناگوار باتوں کو سن کر، اللہ سے زیادہ صبر کرنے والی نہیں ہے۔ لوگ اس کے لیے اولاد ٹھہراتے ہیں اور وہ انھیں تندرستی دیتا ہے، بلکہ انھیں روزی بھی دیتا ہے۔“
[صحیح] - [متفق علیہ]
”ليس أحدٌ، أو: ليس شيءٌ أصبرَ“ یعنی اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ صبر کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام الصبور ہے۔ اس کے معنی ہیں جو نافرمانوں کو عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ یہ حلیم کے معنی کے قریب ہے۔ الحلیم کا نام سزا سے محفوظ رکھنے میں زیادہ بلیغ ہے۔ ”على أذى سمعه من الله“ لفظِ أذى لغت میں اس شر اور برائی کو کہتے ہیں جس کا معاملہ ہلکا اور جسکا اثر بہت کم ہو۔ در اصل اللہ تعالیٰ نے یہ بتا دیا ہے کہ بندے اسے کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے، چنانچہ فرمایا ہے: ﴿وَلاَ يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَن يَضُرُّواْ اللهَ شَيْئاً﴾ ”کفر میں آگے بڑھنے والے لوگ آپ کو غم ناک نہ کریں، یقین مانو کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے“۔ حدیثِ قدسی میں بھی آیا ہے: ”اے میرے بندو تم مجھے ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتے اور نہ ہی ہرگز مجھے نفع پہنچا سکتے ہو“۔ اس طرح یہ واضح ہو گیا کہ مخلوق اسے نقصان تو نہیں پہنچا سکتی؛ البتہ اذیّت دے سکتی ہے۔ ”إنَّهم لَيَدْعُون له ولدًا“ یعنی انسان اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی چیز کی نسبت کرکے، جس سے وہ بلند اور پاک ہے، اسے تکلیف دیتا ہے اور اس کی شان میں گستاخی کرتا ہے۔ جیسے اس کی طرف بیٹے، شریک اور عبادت میں ساجھی کی نسبت کرنا، جب کہ عبادت خالص اسی یکتا ذات کے لیے ہونی چاہیے۔ ”وإنَّه ليُعافِيهم ويرزُقُهم“ یعنی اللہ تعالیٰ ان کی بُرائی کا مقابلے بھلائی عطا کرتا ہے۔ وہ عیب، گالی، ایسے دعووں، جن سے اللہ کی ذات بَری اور پاک ہے، اس کے رسولوں کی تکذیب اور اس کی نافرمانی کرکے اللہ کے ساتھ بُرا کرتے ہیں، لیکن پھر بھی اللہ انھیں صحت یابی، بیماریوں سے شفا، دن رات پیش آنے والی چیزوں سے حفاظت اور زمین و آسمانوں کو مسخر کرکے انہیں رزق عطا کرتا ہے۔ یہ حد درجے کا صبر، حلم اور احسان ہے۔ والله أعلم