عن أبي هريرة رضي الله عنه أنَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلم كان إذا رفع رأسه من الركعة الآخِرة، يقول: «اللهمَّ أَنْجِ عَيَّاش بن أبي ربيعة، اللهمَّ أَنْجِ سَلَمَة بنَ هشام، اللهم أَنْجِ الوليد بن الوليد، اللهم أَنْجِ المستضعفين من المؤمنين، اللهمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَك على مُضَر، اللهمَّ اجعلها سنين كسِنِي يوسف». وأنَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلم قال: «غِفَارُ غفر الله لها، وأَسْلَمُ سالمها الله» قال ابن أبي الزناد عن أبيه: هذا كلُّه في الصبح.
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب اپنے سر کو آخری رکعت ( کے رکوع ) سے اٹھاتے تو فرماتے: ”اے اللہ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے، اے اللہ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے، اے اللہ! ولید بن ولید کو نجات دے، یا اللہ! بے بس و ناتواں مسلمانوں کو نجات بخش، اے اللہ! قبیلہ مضر کی سخت پکڑ فرما، اے اللہ! ان پر يوسف عليہ السلام کے زمانے جيسی قحط سالی مسلط فرما“۔ اور نبی ﷺ فرماتے: ”قبیلہ غفار کی اللہ مغفرت فرمائے اور قبیلہ اسلم کو اللہ سلامت رکھے“۔ ابن ابی الزناد اپنے والد سے روايت کرتے ہيں کہ يہ سب صبح (فجر) کی نماز ميں کہتے تھے۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
نبی ﷺ جب صبح کی نماز کی آخری رکعت میں اپنے سر كو اوپر اٹھاتے تو فرماتے: ”اے اللہ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے، اے اللہ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے، اے اللہ! ولید بن ولید کو نجات دے، یا اللہ! بے بس و ناتواں مسلمانوں کو نجات بخش“ یہ سب صحابہ ہیں جن کے لیے نبی ﷺ نے عذاب سے نجات اور چھٹکارے کی دعا فرمائی۔ یہ لوگ مکہ ميں کفار کی قید میں تھے۔ عیاش بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ ابو جہل کے اخیافی بھائی تھے جنہیں ابو جہل نے مکہ میں قید کر رکھا تھا۔ سلمہ بن ہشام رضی اللہ عنہ ابو جہل کے حقیقی بھائی تھے جو بہت پہلے اسلام لانے والوں ميں سے تھے۔ انہیں اللہ کے راستے میں سخت تکلیف دی گئی اور ہجرت کرنے سے روک دیا گیا۔ ولید بن ولید رضی اللہ عنہ، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے جو مکہ میں قید تھے اور بعد ميں ان سے چھوٹ کر بھاگ آئے۔ پھر آپ ﷺ فرماتے: ”اے اللہ! قبیلہ مضر کی سخت پکڑ فرما۔ اے اللہ! ان پر يوسف عليہ السلام کے زمانے جيسی قحط سالی مسلط فرما“ یعنی اے اللہ! قریش کے کفار پر جو قبیلہ مضر سے ہیں، اپنا عذاب اور عقاب سخت کر دے اور ان پر اپنے عذاب کی یہ صورت بنا کہ ان پر سات سال یا اس سے بھی زیادہ مدت تک يوسف عليہ السلام کے زمانے جيسا بڑا قحط مسلط کر دے۔ ہو سکتا ہے کہ ”الوطأة“ - جس کا معنی ”پاوں سے روندنا“ ہے- اس حدیث کی رو سے اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہو، لیکن ہم نے سلف صالحین اور علمائے مسلمین میں سے کسی کو نہیں پايا جس نے اسے اللہ عز و جل کی صفات میں سے شمار کیا ہو۔ لھٰذا اسے سختی اور عذاب پر محمول کیا جائے گا۔ اس کی نسبت اللہ کی طرف کی گئی کیونکہ یہ اسی کا فعل اور اسی کا مقدر کردہ ہے۔ واللہ اعلم۔ پھر آپ ﷺ فرماتے: ”غِفَارُ غَفَر اللهُ لها“ ہو سکتا ہے کہ یہ اس كے ليے مغفرت کی دعا ہو (یعنی اللہ غفار قبیلے کی مغفرت کرے) اور یہ بھی احتمال ہے کہ (آپ ﷺ کی طرف سے) خبر ہو کہ اللہ تعالی نے انہیں معاف کر دیا ہے۔ اسی طرح ”وأَسْلَمُ سالمها الله“ بھی ہے کہ ہو سکتا ہے یہ قبیلہ اسلم کے لئے دعا ہو کہ اللہ تعالی ان کو سلامت رکھے اور ان کے ساتھ جنگ کا حکم نہ دے اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ اس بات کی خبر ہو کہ اللہ نے انہیں سلامت رکھا اور ان کے ساتھ جنگ کرنے سے منع فرما دیا ہے۔ بطور خاص ان دو قبیلوں کی لئے دعا کی گئی کیونکہ غفار قبیلہ بہت پہلے اسلام لے آیا تھا اور قبیلہ اسلم نے نبی ﷺ سے صلح کر لی تھی۔ ”ابن ابی زناد اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ: یہ سب صبح کی نماز میں ہوتا تھا“ یعنی ابن ابی زناد نے اس حدیث کو اس سند کے ساتھ اپنے والد سے روایت کیا اور وضاحت کی کہ مذکورہ دعا صبح کی نماز میں ہوتی تھی۔