عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «كيف أَنْعَمُ وقدِ الْتَقَمَ صاحبُ القَرْنِ القَرْنَ وحَنَى جَبهتَه وأَصْغَى سمعَه ينتظرُ أنْ يُؤمَرَ أنْ يَنْفُخَ فينفخُ» قال المسلمون: فكيف نقولُ يا رسولَ الله؟ قال: «قولوا: حسبُنا اللهُ ونِعْمَ الوَكيلُ توكَّلنا على اللهِ ربِّنا» وربما قال سفيان: على الله توكَّلنا.
[صحيح] - [رواه الترمذي وأحمد]
المزيــد ...
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں کیسے چین سے رہ سکتا ہوں جب کہ صور پھونکنے والا صور کو منہ سے لگائے ہوئے اور اپنی پیشانی جھکائے ہوئے اور اپنا کان لگائے ہوئے، انتظار میں ہے کہ اسے صور پھونکنے کا حکم دیا جائے تو وہ فوراً صور پھونک دے“، مسلمانوں نے کہا: ہم (ایسے موقعوں پر) کیا کہیں اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے فرمایا کہو :﴿حسبُنا اللهُ ونِعْمَ الوَكيلُ توكَّلنا على اللهِ ربّنا﴾ ”ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے، ہم نے اپنے رب اللہ پر بھروسہ کر رکھا ہے“۔ راوی کہتے ہیں کہ کبھی کبھی سفیان نے ”توكَّلنا على اللهِ ربِّنا“ کے بجائے ”على الله توكَّلنا“ روایت کرتے۔ (یعنی ہم نے اپنے رب اللہ پر بھروسہ کیا ہے)۔
[صحیح] - [اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
اس حدیث میں نبی ﷺ فرماتے ہیں: میں دنیا میں کیسے خوش و خرم رہوں اور اس کی لذتوں سے بہرہ ور ہوتا رہوں جب کہ قیامت قریب ہے اور صور پھونکنے پر مامور فرشتہ (اسرافیل) اپنے منہ کو صور کے ساتھ لگائے ہوئے ہے، اپنے سر کو اسی طرف جھکائے ہوئے خاموش تیار ہے کہ اللہ صور پھونکنے کا حکم دے اور وہ صور پھونکے یہاں تک کہ آسمانوں اور زمین میں موجود لوگ بیہوش ہوجائیں اور قیامت قائم ہو جائے؟ یہ معاملہ یعنی قیامت قائم ہونے کی قربت رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں پر بھاری و بوجھل محسوس ہوئی، انھوں نے کہا: ایسے موقع پر ہم کیا کہیں اے اللہ کے رسول؟ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ﴿حسبُنا اللهُ ونِعْمَ الوَكيلُ توكَّلنا على اللهِ ربِّنا﴾ ”ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے، ہم نے اپنے رب اللہ پر بھروسہ کر رکھا ہے“ یعنی کہو کہ:اللہ ہمارے لیے کافی ہے، وہی ہمارا کارساز ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے اور ہم نے اللہ سبحانہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کیا ہے۔