عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما ، أنَّ رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بَلَعْقِ الأصابع والصَّحْفَةِ، وقال: «إنَّكم لا تدرون في أَيِّهَا البركة».
وفي رواية: «إذا وقعت لُقْمَةُ أحدكم فليأخذها، فَلْيُمِطْ ما كان بها من أذى، وليأكلها ولا يدعها للشيطان، ولا يمسح يده بالمِنْدِيلِ حتى يَلْعَقَ أصابعه فإنه لا يدري في أَيِّ طعامه البركة».
وفي رواية: «إن الشيطان يحضر أحدكم عند كل شيء من شأنه، حتى يحضره عند طعامه، فإذا سقطت من أحدكم اللُّقْمَةُ فَلْيُمِطْ ما كان بها من أذى، فليأكلها ولا يدعها للشيطان».
[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...
جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (کھانے کے بعد) انگلياں اور پليٹ چاٹ لينے کا حکم ديا، اور فرمايا: ”تم نہیں جانتے کہ ان ميں سے کس (کھانے) میں برکت ہے“۔
ایک دوسرى روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اسے اٹھا لے اور اس ميں لگی ہوئی گندگی کو صاف کرکے کھالے اور اسے شيطان کے ليے نہ چھوڑے، اور اپنے ہاتھ کو رومال سے نہ پونچھے يہاں تک اپنی انگلياں چاٹ لے، اس لیے کہ وہ نہيں جانتا کہ اس کے کس کھانے ميں برکت ہے“۔
ایک اور روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ”بلاشبہ شیطان تمہارے پاس تمہارے ہر کام کے وقت حاضر رہتا ہے حتی کہ کھانے کے وقت بھی موجود رہتا ہے۔ لہٰذا اگر تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تواسے (اٹھاكر) اس ميں لگی ہوئی گندگی کو صاف کرکے کھالے اور اسے شيطان کے ليے نہ چھوڑے“۔
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے نبی کریم ﷺ سے کھانے کے کچھ آداب نقل کیے ہیں۔ انہيں آداب میں سے ایک یہ ہے کہ: انسان جب کھانے سے فارغ ہو جائے تو اپنی انگلیوں اور پلیٹ کو اچھی طرح چاٹ لے يہاں تک کہ اس میں کھانے کا کوئی اثر باقی نہ رہ جائے، کيونکہ تمہیں نہیں معلوم کہ تمہارے کس کھانے میں برکت ہے۔ اسی طرح کھانے کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ: جب انسان کا لقمہ زمین پر گر جائے تو اسے نہ چھوڑے۔ کيونکہ شیطان انسان کے تمام امور میں موجود رہتا ہے۔ (اگر وہ لقمے کو يوں ہی گرا ہوا چھوڑ دے گا) تو شیطان اسے اٹھا لے گا، ليكن ایسا نہیں ہے کہ وہ اسے اٹھاتے ہوئے ہمیں نظر بھی آئے۔ کیونکہ یہ ایک غیبی معاملہ ہے جس کا ہم مشاہدہ نہیں کرتے، ليكن صادق و مصدوق ﷺ کے خبر دینے سے ہميں یہ بات معلوم ہوئی کہ شیطان اسے اٹھا کر کھا لیتا ہے، اگرچہ ظاہری طور پر وہ (لقمہ) ہمارے سامنے ہی موجود رہتا ہے، لیکن وہ اسے غیبی طور پر کھاليتا ہے۔ یہ ان غیبی امور میں سے ہے جس کی تصدیق کرنا ہم پرواجب ہے۔۔