عن أبي موسى الأشعري رضي الله عنه مرفوعاً: «جَنَّتانِ مِن فِضَّةٍ آنِيَتُهما، وما فيهما، وجَنَّتانِ مِن ذَهَبٍ آنِيَتُهما، وما فيهما، وما بين القومِ وبين أنْ ينظروا إلى ربِّهم إلَّا رِداءُ الكِبْرِياءُ على وجهِه في جَنَّة عَدْنٍ».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نےفرمایا: ”دو جنتیں ایسی ہیں کہ ان کے برتن اور ساری چیزیں چاندی کی ہیں اور دو جنتیں ایسی ہیں کہ ان کے برتن اور ان کی ساری چیزیں سونے کی ہیں۔ جنت عدن میں لوگوں کے اور ان کے رب کے دیدار کے درمیان صرف اس کے چہرے پہ پڑی کبریائی کی چادر ہو گی، جو دیدار سے مانع ہو گی“۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
یہ حدیث جنت کے مختلف منازل اور درجات پر دلالت کرتی ہے۔ ان میں سے کچھ درجات دوسرے سے حسی اور معنوی طور پر اعلیٰ ہیں کہ بعض کی تعمیر سونے سے ہوگی اور ان کے برتن سونے کے ہوں گے اور بعض کی تعمیر چاندی کی ہوگی اور ان کے برتن بھی چاندی کے ہوں گے۔ یہ تو معلوم ہے کہ قرآن نزول کے وقت جن لوگوں سے مخاطب تھا، ان کے یہاں سونا سب سے مہنگا اور عمدہ دھات ہے، لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ جنت میں سونے سے زیادہ اعلیٰ و عمدہ چیزیں موجود ہوں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس میں ایسی چیزیں ہیں، جنھیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیںسنا اور نہ کسی انسان کے دل پر اس کا خیال گزرا ہے۔ اس حدیث کے بعض روایات کے شروع میں ہے : ”جنت الفردوس چار طرح کے ہیں...“۔ ”جنت عدن میں لوگوں کے اور ان کے رب کے دیدار کے درمیان صرف اس کے چہرے پہ پڑی کبریائی کی چادر ہو گی“ اس میں اس بات کی صراحت ہے کہ یہ لوگ اللہ کو سب سے زیادہ قریب سے دیکھ سکیں گے۔ جب اللہ تعالیٰ ان کو خوش کرنا چاہے گا اور ان کے شرف میں اضافہ کرنا چاہے گا، تو اپنے چہرے سے کبریائی کی چادر اٹھائے گا اور وہ اسے دیکھ سکیں گے۔ اہل سنت اللہ تعالیٰ کے لیے کبریائی کی چادر اور جنت میں مؤمنین کی اپنے رب کی رؤیت کو بغیر کسی کیفیت، نمونے اور بغیر کسی تحریف و تعطیل کے ثابت مانتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے اس کے شایانِ شان چہرے کو ثابت کرتے ہیں۔ اس میں کسی طرح کی تاویل کرنا اور اسے ظاہر سے پھیر کر دوسرا معنیٰ مُراد لینا جائز نہیں ہے۔ یہی سلف صالحین کا مذہب ہے۔