عن سعيد بن جُبير، قال: قلتُ لابن عباس: إنَّ نَوْفًا البَكالي يزعم أنَّ موسى ليس بموسى بني إسرائيل، إنما هو موسَى آخر؟ فقال: كذبَ عدوُّ الله، حدثنا أُبَي بن كعب عن النبي صلى الله عليه وسلم: «قام موسى النبيُّ خطيبًا في بني إسرائيل، فسُئل أيُّ الناس أعلم؟ فقال: أنا أعلم، فعتب الله عليه، إذ لم يَرُدَّ العلم إليه، فأوحى الله إليه: أنَّ عبدًا من عبادي بمَجْمَع البحرين، هو أعلم منك. قال: يا رب، وكيف به؟ فقيل له: احمل حوتًا في مِكْتَل، فإذا فقدتَه فهو ثَمَّ، فانطلق وانطلق بفتاه يُوشِع بن نُون، وحملا حوتًا في مِكْتَل، حتى كانا عند الصخرة وضعا رءوسهما وناما، فانسلَّ الحوتُ من المِكْتَل فاتخذ سبيله في البحر سَرَبًا، وكان لموسى وفتاه عَجَبًا، فانطلقا بقية ليلتهما ويومهما، فلما أصبح قال موسى لفتاه: آتنا غداءنا، لقد لَقِينا من سفرنا هذا نَصَبًا، ولم يجد موسى مسًّا من النَّصَب حتى جاوز المكان الذي أُمِر به، فقال له فتاه: أرأيتَ إذ أوينا إلى الصخرة فإني نسيتُ الحوتَ، وما أنسانيهُ إلا الشيطانُ. قال موسى: ذلك ما كنا نَبْغي فارتدَّا على آثارِهما قصصًا. فلما انتهيا إلى الصخرة، إذا رجل مُسَجًّى بثوب، أو قال تَسَجَّى بثوبه، فسلَّم موسى، فقال الخَضِر: وأنَّى بأرضك السلام؟ فقال: أنا موسى، فقال: موسى بني إسرائيل؟ قال: نعم، قال: هل أتَّبِعُك على أن تُعَلِّمَني مما عُلِّمْتَ رُشْدًا قال: إنَّك لن تستطيع معيَ صبرا، يا موسى إني على علم من علم الله علَّمَنيه لا تعلمه أنت، وأنت على علم علَّمَكَه لا أعلمه، قال: ستجدني إن شاء الله صابرا، ولا أعصي لك أمرا، فانطلقا يمشيان على ساحل البحر، ليس لهما سفينة، فمرَّت بهما سفينة، فكلَّموهم أن يحملوهما، فعرف الخَضِر فحملوهما بغير نَوْل، فجاء عصفور، فوقع على حرف السفينة، فنقر نقرة أو نقرتين في البحر، فقال الخضر: يا موسى ما نقص علمي وعلمك من علم الله إلا كنقرة هذا العصفور في البحر، فعَمَد الخضر إلى لوح من ألواح السفينة، فنزعه، فقال موسى: قوم حملونا بغير نَوْل عَمَدتَ إلى سفينتهم فخرقتها لتُغْرِق أهلها؟ قال: ألم أقل إنك لن تستطيع معي صبرا؟ قال: لا تؤاخذني بما نسيتُ ولا تُرْهِقْني من أمري عُسْرًا -فكانت الأولى من موسى نسياناً-، فانطلقا، فإذا غُلام يلعب مع الغِلمان، فأخذ الخَضِر برأسه من أعلاه فاقتلع رأسه بيده، فقال موسى: أقتلتَ نفسا زكِيَّة بغير نفس؟ قال: ألم أقل لك إنك لن تستطيع معي صبرا؟ -قال ابن عيينة: وهذا أوكد- فانطلقا، حتى إذا أتيا أهل قرية استَطْعما أهلَها، فأَبَوْا أن يُضَيِّفوهما، فوجدا فيها جدارًا يريد أن يَنْقَضَّ فأقامه، قال الخضر: بيده فأقامه، فقال له موسى: لو شئتَ لاتخذتَ عليه أجرا، قال: هذا فِراق بيني وبينك». قال النبي صلى الله عليه وسلم: «يرحمُ اللهُ موسى، لوَدِدْنا لو صبر حتى يُقَصَّ علينا من أمرهما».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بَکالی کا یہ خیال ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) (جو خضر کے پاس گئے تھے وہ) موسیٰ بنی اسرائیل والے نہیں تھے بلکہ دوسرے موسیٰ تھے، (یہ سن کر) ابن عباس رضی اللہ عنہما بولے کہ اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا ہے۔ ہم سے ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ (ایک روز) موسیٰ (علیہ السلام) نے کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ دیا، تو آپ سے ایک شخص نے پوچھا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب علم کون ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ہوں۔ لہذا اللہ نے ان پر عتاب فرمایا کہ انہوں نے علم کو اللہ کے حوالے کیوں نہ کردیا۔ تب اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ دریاؤں کے سنگم پر ہے۔ وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے، موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے پروردگار ! میری ان سے ملاقات کیسے ہو؟ حکم ہوا کہ ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لو، پھر جہاں تم اس مچھلی کو گم کر دو گے تو وہ بندہ تمہیں (وہیں) ملے گا۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) چلے اور ساتھ اپنے خادم یوشع بن نون کو لے لیا اور انہوں نے زنبیل میں مچھلی رکھ لی، جب (ایک) پتھر کے پاس پہنچے، دونوں اپنے سر اس پر رکھ کر سو گئے اور مچھلی زنبیل سے نکل کر دریا میں اپنی راہ بناتی چلی گئی اور یہ بات موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی کے لیے بےحد تعجب کی تھی، پھر دونوں باقی رات اور دن میں (جتنا وقت باقی تھا) چلتے رہے، جب صبح ہوئی موسیٰ (علیہ السلام) نے خادم سے کہا، ہمارا ناشتہ لاؤ، اس سفر میں ہم نے (کافی) تکلیف اٹھائی ہے لیکن موسیٰ (علیہ السلام) بالکل نہیں تھکے تھے، مگر جب اس جگہ سے آگے نکل گئے، جہاں تک انہیں جانے کا حکم ملا تھا، تب ان کے خادم نے کہا، کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم صخرہ کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی کا ذکر بھول گیا، اور مجھے اس کی یاد سے شیطان نے غافل رکھا، (یہ سن کر) موسیٰ (علیہ السلام) بولے کہ یہی وہ جگہ تھی جس کی ہمیں تلاش تھی، تو وہاں سے اُلٹے پاؤں واپس ہوئے، جب پتھر تک پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص کپڑا لپیٹے ہوئے یا کپڑے میں لپٹا ہوا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں سلام کیا، خضر نے کہا کہ تمہاری سر زمین میں سلام کہاں؟ پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) ہوں، خضر بولے کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ! پھر کہا کیا میں آپ کے ساتھ چل سکتا ہوں، تاکہ آپ مجھے ہدایت کی وہ باتیں بتلائیں جو اللہ نے خاص آپ ہی کو سکھلائی ہیں۔ خضر بولے کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکو گے۔ اے موسیٰ ! مجھے اللہ نے ایسا علم دیا ہے جسے تم نہیں جانتے اور تم کو جو علم دیا ہے اسے میں نہیں جانتا۔ (اس پر) موسیٰ نے کہا کہ اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی بات میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ پھر دونوں دریا کے کنارے کنارے پیدل چلے، ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی کہ ایک کشتی ان کے سامنے سے گزری، تو کشتی والوں سے انہوں نے کہا کہ ہمیں بٹھا لو۔ خضر کو انہوں نے پہچان لیا اور بغیر کرایہ کے سوار کرلیا، اتنے میں ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی، پھر سمندر میں اس نے ایک یا دو چونچیں ماریں (اسے دیکھ کر) خضر بولے کہ اے موسیٰ ! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم میں سے اتنا ہی کم کیا ہوگا جتنا اس چڑیا نے سمندر (کے پانی) سے، پھر خضر نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ نکال ڈالا، موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ ان لوگوں نے تو ہمیں کرایہ لیے بغیر سوار کیا اور آپ نے ان کی کشتی کی لکڑی اکھاڑ ڈالی تاکہ یہ ڈوب جائیں، خضر بولے کہ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکو گے ؟ (اس پر) موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ میری بھول پر مجھے نہ پکڑیئے اور مجھے اپنے کام میں تنگی میں نہ ڈالیے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بھول کر یہ پہلا اعتراض کیا تھا۔
پھر دونوں چلے ایک لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، خضر نے اوپر سے اس کا سر پکڑ کر ہاتھ سے اسے الگ کردیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) بول پڑے کہ آپ نے ایک بےگناہ بچے کو بغیر کسی جانی حق کے مار ڈالا؟ خضر (علیہ السلام) بولے کہ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکو گے۔ ابن عیینہ کہتے ہیں کہ اس کلام میں پہلے سے زیادہ تاکید ہے (اس میں ’لک‘ زائد ہے جس سے تاکید ظاہر ہے) پھر دونوں چلتے رہے۔ حتیٰ کہ ایک گاؤں والوں کے پاس آئے، ان سے کھانا لینا چاہا۔ انہوں نے کھانا کھلانے سے انکار کردیا۔انہوں نے وہیں دیکھا کہ ایک دیوار اسی گاؤں میں گرنے کے قریب تھی۔ خضر نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اسے سیدھا کردیا۔ موسیٰ بول اٹھے کہ اگر آپ چاہتے تو (گاؤں والوں سے) اس کام کی مزدوری لے سکتے تھے۔ خضر نے کہا کہ (بس اب) ہم اور تم میں جدائی کا وقت آگیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ موسیٰ پر رحم کرے، ہماری تمنا تھی کہ موسیٰ کچھ دیر اور صبر کرتے تو مزید واقعات ان دونوں کے بیان ہوتے۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
سعید بن جبیرکہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے کہ وہ موسی (جو خضر کے ساتھ گئے تھے) بنی اسرائیل کے موسی نہیں ہیں بلکہ وہ دوسرے موسی ہیں؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا ہے، یہ جملہ ان سے ڈانٹ اور انتباہ کے طور پر نکلا تھا نوف پر طعنہ زنی کے طورپر نہیں، کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حالت غضب میں کہا تھا اور حالت غضب میں نکلے ہوئے الفاظ غالباً حقیقت کے خلاف واقع ہوا کرتے ہیں، چونکہ اس نے خلافِ واقع بات کہی تھی اس لیے ان کو جھٹلایا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ نوف نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا تھا۔ پھر آپ نے نوف بکالی کے جھوٹ کے خلاف دلیل دی کہ ان سے ابی بن کعب نے بیان کیا، انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: موسی علیہ السلام بنی اسرائیل میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، تو آپ سے ایک شخص نے پوچھا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحبِ علم کون ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ہوں۔ لہذا اللہ نے ان پر عتاب فرمایا کہ انہوں نے علم کو اللہ کے حوالے کیوں نہ کردیا اور اللہ أعلم نہیں کہا۔ چنانچہ اللہ نے ان کے اوپر وحی نازل فرمائی کہ میرا ایک بندہ دو دریا کے ملنے کی جگہ پر ہے جس کا نام خضر ہے وہ تم سے زیادہ علم والا ہے، موسی علیہ السلام نے عرض کیا اے میرے رب! ان سے ملاقات کی کیا صورت ہے؟ اللہ نے حکم دیا کہ ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لو جس جگہ یہ مچھلی گم ہو جائے وہ وہیں پر ملے گے، پھر موسی علیہ السلام ایک مچھلی کو زنبیل میں رکھ کر جیسا کہ اللہ تعالی نے انہیں حکم دیا تھا چلے اور ان کے ساتھ ان کے خادم بھی تھے جن کا نام یوشع بن نون تھا۔ یہاں تک کہ جب دونوں ایک چٹان کے پاس سمندر کے ساحل پر پہنچے تو وہ دونوں اپنے سر کو زمین پر رکھ کر سو گئے، چنانچہ مچھلی زنبیل سے نکل بھاگی اور دریا میں اس نے راستہ بنا لیا اللہ تعالٰی نے مچھلی کے کودنے سے پانی کے بہاؤ کو روک دیا اور دریا میں اس نے راستہ بنا لیا موسی علیہ السلام اور ان کے خادم کو تعجب ہوا، چنانچہ وہ دونوں ایک رات اور ایک دن میں جتنا باقی رہ گیا تھا وہ چلتے رہے، جب صبح ہوئی تو موسی علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا ہمارا ناشتہ لاؤ ہم تو اس سفر سے تھک گئے، موسی علیہ السلام کو اس وقت تک تھکان نے چھوا بھی نہیں مگر جب وہ اس جگہ سے آگے بڑھ گئے جہاں تک انہیں جانے کا حکم ہوا تھا، اس وقت ان کے خادم نے کہا آپ نے نہیں دیکھا جب ہم چٹان کے پاس پہنچے تھے تو مچھلی نکل بھاگی تھی، موسی علیہ السلام نے کہا ہم تو اسی کے تلاش میں تھے کیونکہ یہ نشانی ہے خضر سے ملنے کی، آخر وہ دونوں کھوج لگاتے ہوئے اپنے پاؤں کے نشانوں پر لوٹے جب اس چٹان کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص کپڑے میں لپٹے ہوئے یا کپڑا لپیٹتے ہوئے موجود ہے، موسی علیہ السلام نے ان سے سلام کیا تو خضر نے کہا ’’وأنَّى بأرضك السلام‘‘ یعنی تمہارے ملک میں سلامتی کہاں ہے؟ یہ استفہام استبعاد ہے یعنی یہ تو خارج از امکان ہے، اس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ اس ملک والے اس وقت مسلمان نہیں تھے۔ موسی علیہ السلام نے خضر سے کہا میں موسی ہوں خضر نے پوچھا بنی اسرائیل کی طرف مبعوث موسی؟ موسی علیہ السلام نے کہا ہاں ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء اور ان کے علاوہ (کوئی بھی) غیب نہیں جانتے، ہاں مگر جن چیزوں کے بارے میں اللہ نے انبیاء کو خبر کیا ہو کیونکہ اگر خضر تمام غیب کی چیزوں کو جانتے تو ان سے سوال کرنے سے پہلے پہچان لیتے، یہی بات محل شاہد ہے جس کی وجہ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حدیث کو ذکر کیا۔ پھر ان سے موسی علیہ السلام نے کہا کیا میں آپ کے ساتھ اس شرط پر رہ سکتا ہوں کہ آپ مجھے وہ علم سکھلائیں جو علم کی باتیں آپ کو سکھائی گئی ہیں؟ یہ کہنا نبی ہونے کے منافی نہیں ہے اور کسی صاحب شریعت کا اپنے علاوہ سے تعلیم سیکھنا دین کے معاملے کے علاوہ شرط نہیں ہے کیونکہ رسول کا ان سے زیادہ جاننا جن کی طرف وہ بھیجے گئے دین کے اصول اور فروع میں ہے نہ کہ ہرعلم میں، خضر نے کہا تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ہو کیونکہ میں بظاہر ایسے کام کرتا ہوں جو کہ منکر ہیں اور ان کي باطن کا تمہیں کوئی علم نہیں ہے۔ پھر ان سے کہا اے موسی! اللہ نے ہمیں وہ علم دیا ہے جو تمہیں نہیں دیا ہے اور اللہ نے جو تمہیں علم دیا ہے وہ علم مجھے نہیں دیا ہے۔ موسی علیہ السلام نےکہا کہ اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے یعنی اس پر میں کوئی نکیر نہ کروں گا اور نہ تو میں آپ کی کوئی نافرمانی کروں گا۔ چنانچہ وہ دونوں دریا کے کنارے چلنے لگے ان دونوں کے پاس کشتی نہیں تھی، اتنے میں ادھر سے ایک کشتی گزری انہوں نے کشتی والوں سے کہا کہ ہمیں سوار کر لو چنانچہ انہوں نے خضر کو پہچان لیا اور دونوں کو بغیر اجرت لیے سوار کر لیا، اتنے میں ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی پھر اس نے ایک یا دو چونچیں سمندر میں ماریں۔ خضر نے کہا اے موسی! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم سے صرف اتنا ہی علم لیا ہے جتنا کہ اس چڑیا کی چونچ میں پانی آیا ہے۔ اس کے بعد خضر نے کشتی کی تختیوں میں سے ایک تختہ کی طرف قصد کیا اور اسے کلہاڑی سے اکھاڑ ڈالا کشتی میں سوراخ ہو گیا اور پانی داخل ہو گیا موسی علیہ السلام نے کہا ان لوگوں نے تو ہمیں بغیر اجرت لیے سوار کر لیا اور آپ نے ان کی کشتی میں سوراخ کر دیا اور کشتی والوں کو ڈبانا چاہا، خضر انہیں یاد دِلاتے ہوئے کہا میں نے کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے، موسی علیہ السلام نے کہا بھول چوک پر میری گرفت نہ کریں اور مجھے مشکل میں نہ ڈالیں اس لیے کہ ایسا کرنے سے آپ کی پیروی نہیں کر پاؤں گا یہ پہلا اعتراض موسی کا بھولے سے ہی تھا۔ پھر دونوں کشتی سے اترنے کے بعد چلے ایک لڑکا کچھ لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا خضر نے اس کے سر کو اوپر سے پکڑ کر اسے اپنے ہاتھ سے الگ کردیا۔ موسی علیہ السلام نے کہا تم نے ایک معصوم جان کا نا حق خون کیا، خضر نے کہا میں نے تم سے کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ سفیان بن عیینہ حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی ہیں انہوں نے کہا یہ بات پہلے سے زیادہ سخت ہے، کیونکہ اس بار ’’ لک ‘‘یعنی خطاب کے صیغے کا استعمال کیا۔ پھر دونوں چلتے چلتے ایک گاؤں والوں کے پاس پہنچے ان سے کھانا مانگا چنانچہ انہوں نے کھانا کھلانے سے انکار کر دیا اس گاؤں میں کوئی مہمان نواز اور پناہ گاہ نہ مل سکی، پھر دونوں نے دیکھا کہ اس گاؤں میں ایک دیوار جو گرنے کے قریب ہے خضر نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے دیوار کو سیدھا کر دیا، موسی علیہ السلام نے کہا اگر آپ چاہتے تو ان گاؤں والوں سے مزدوری لے سکتے تھے، جس سے ہمارے سفر میں مدد ملتی، خضر نے موسی علیہ السلام سے کہا اس تیسرے اعتراض کی وجہ سے مجھ میں اور تم میں جدائی کی گھڑی آن پہنچی۔ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ موسی علیہ السلام پر رحم کرے ہم تو یہ چاہتے تھے کاش موسی علیہ السلام ان کے ساتھ پیش آنے والے حالات پر صبر کرتے تو ان کے علم وحکمت کی اور مزید حالات ہم سے بیان کیے جاتے۔