عن النواس بن سمعان رضي الله عنه قال: ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم الدجال ذات غداة، فخفض فيه ورفع حتى ظنناه في طائفة النخل. فلما رحنا إليه، عرف ذلك فينا، فقال: «ما شأنكم؟» قلنا: يا رسول الله، ذكرت الدجال الغداة، فخفضت فيه ورفعت، حتى ظنناه في طائفة النخل. فقال «غيرُ الدجال أخوفُني عليكم، إن يخرج وأنا فيكم فأنا حَجِيجُهُ دونكم، وإن يخرج ولستُ فيكم فامرؤ حجيج نفسه، والله خليفتي على كل مسلم. إنه شاب قَطَطٌ عينه طافية، كأني أُشَبِّهُهُ بعبد العُزَّى بن قَطَن، فمن أدركه منكم، فليقرأ عليه فواتح سورة الكهف؛ إنه خارج خَلَّةً بين الشام والعراق، فَعَاثَ يمينا وعاث شمالا، يا عباد الله فاثبتوا» قلنا: يا رسول الله، وما لبثه في الأرض؟ قال: «أربعون يوما: يوم كسنة، ويوم كشهر، ويوم كجمعة، وسائر أيامه كأيامكم» قلنا: يا رسول الله، فذلك اليوم الذي كسنة أتكفينا فيه صلاة يوم؟ قال: «لا، اقدروا له قدره». قلنا: يا رسول الله، وما إسراعه في الأرض؟ قال: «كالغيث استدبرته الريح، فيأتي على القوم، فيدعوهم فيؤمنون به ويستجيبون له، فيأمر السماء فتمطر، والأرض فتنبت، فتروح عليهم سارحتهم أطول ما كانت ذرى. وأسبغه ضروعا، وأمده خواصر، ثم يأتي القوم فيدعوهم، فيردون عليه قوله، فينصرف عنهم، فيصبحون مُمْحِلِينَ ليس بأيديهم شيء من أموالهم، ويمر بالخربة، فيقول لها: أخرجي كنوزك، فتتبعه كنوزها كَيَعَاسِيبِ النحل، ثم يدعو رجلا ممتلئا شبابا فيضربه بالسيف، فيقطعه جزلتين رمية الغرض، ثم يدعوه، فيقبل، ويتهلل وجهه يضحك، فبينما هو كذلك إذ بعث الله تعالى المسيح ابن مريم صلى الله عليه وسلم فينزل عند المنارة البيضاء شرقي دمشق بين مَهْرُودَتَيْنِ ، واضعا كفيه على أجنحة ملكين، إذا طأطأ رأسه قطر، وإذا رفعه تحدر منه جمان كاللؤلؤ، فلا يحل لكافر يجد ريح نفسه إلا مات، ونفسه ينتهي إلى حيث ينتهي طرفه، فيطلبه حتى يدركه بباب لد فيقتله، ثم يأتي عيسى صلى الله عليه وسلم قوما قد عصمهم الله منه، فيمسح عن وجوههم ويحدثهم بدرجاتهم في الجنة، فبينما هو كذلك إذ أوحى الله تعالى إلى عيسى صلى الله عليه وسلم : أني قد أخرجت عبادا لي لا يَدَانِ لأحد بقتالهم، فحَرِّزْ عبادي إلى الطُّور. ويبعث الله يأجوج ومأجوج وهم من كل حَدَبٍ يَنْسِلُون، فيمر أوائلهم على بحيرة طَبَرِيَّةَ فيشربون ما فيها، ويمر آخرهم فيقولون: لقد كان بهذه مرة ماء، ويحصر نبي الله عيسى صلى الله عليه وسلم وأصحابه حتى يكون رأس الثور لأحدهم خيرا من مئة دينار لأحدكم اليوم، فيرغب نبي الله عيسى صلى الله عليه وسلم وأصحابه رضي الله عنهم إلى الله تعالى، فيرسل الله تعالى عليهم النَّغَفَ في رِقَابهم، فيُصبحون فَرْسَى كموت نفس واحدة، ثم يهبط نبي الله عيسى صلى الله عليه وسلم وأصحابه رضي الله عنهم إلى الأرض، فلا يجدون في الأرض موضع شِبْرٍ إلا ملأه زَهَمُهُمْ ونَتَنُهُم، فيرغب نبي الله عيسى صلى الله عليه وسلم وأصحابه رضي الله عنهم إلى الله تعالى، فيرسل الله تعالى طيرا كأعناق البُخْتِ ، فتحملهم، فتطرحهم حيث شاء الله، ثم يرسل الله عز وجل مطرا لا يكن منه بيت مَدَرٍ وَلا وَبَرٍ ، فيغسل الأرض حتى يتركها كَالزَّلَقَةِ ، ثم يقال للأرض: أنبتي ثمرتك، وردي بركتك، فيومئذ تأكل العِصَابَةُ من الرمانة، ويستظلون بِقَحْفِهَا ، ويبارك في الرسل حتى أن اللقحة من الإبل لتكفي الفئام من الناس؛ واللقحة من البقر لتكفي القبيلة من الناس، واللَّقْحَة من الغنم لتكفي الفَخِذَ من الناس؛ فبينما هم كذلك إذ بعث الله تعالى ريحا طيبة فتأخذهم تحت آباطهم. فتقبض روح كل مؤمن وكل مسلم؛ ويبقى شرار الناس يَتَهَارَجُونَ فيها تهارج الحمر، فعليهم تقوم الساعة».
[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...
نواس بن سمعان رضي اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک صبح رسول اللہ ﷺ نے دجال کا ذکر کیا تو اس طرح اس کی ذلت و حقارت اور اس کے فتنے کی بڑائی بیان کی کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ کھجوروں کے جھنڈ میں ہے۔ چنانچہ جب ہم (بعد میں) آپ ﷺ کے پاس گئے، تو آپ ﷺ ہمارے اندر موجود اضطراب کو بھانپ گئے۔ پس آپ ﷺ نے پوچھا: تمھارا کیا حال ہے؟ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! صبح آپ نے دجال کے فتنے کا ذکر کیا اور اسے حقیر اور خطرناک کرکے بیان کیا، یہاں تک کہ ہم نے اس کی بابت یہ گمان کیا کہ وہ یہاں کھجوروں کے جھنڈ میں ہی موجود ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: دجال کے علاوہ اور چیزوں سے مجھے تمھاری بابت زیادہ شدید اندیشہ ہے، اگر دجال میری موجودگی میں نکلا تو تمھاری جگہ میں خود اس سے نمٹ لوں گا۔ اور اگر میری زندگی کے بعد نکلا تو ہر آدمی خود اپنے نفس کا دفاع کرے گا۔ اور اللہ تعالیٰ ہر مسلمان پر میرا جانشین ہے (میری بجائے اللہ نگران ہے)۔ وہ دجال نوجوان اور گھنگریالے بالوں والا ہوگا۔ اس کى ایک آنکھ ابھری ہوئی ہوگی۔ گویا کہ میں اسے عبد العزی بن قطن سے تشبیہ دیتا ہوں۔ اگر تم میں سے کوئی اسے پائے، تو اس پر سورت کہف کی ابتدائی آیات پڑھے۔ وہ شام اور عراق کے درمیانی راستے پر نکلے گا۔ اور پھر دائیں بائیں (ہرطرف) فساد برپا کرے گا، اے اللہ کے بندوں! (اس وقت) ثابت قدم رہنا۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ وہ کتنی مدت زمین پر ٹھہرے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: چالیس دن: ایک دن ایک سال کے برابر، ایک دن ایک ماہ کے برابر اورایک دن جمعے (یعنی ایک ہفتے) کے برابر، اور اس کے باقی دن تمہارے عام دنوں کی طرح ہوں گے۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول وہ دن جو سال کے برابر ہوگا کیا اس میں ہمارے لیے ایک دن کی نماز کافی ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، تم اس کا اندازہ کر کرکے پڑھنا۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! زمین میں اس کی تیز رفتاری کس قدر ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بارش کی طرح، جس کو ہوا پیچھے کی طرف سے دھکیل رہی ہو۔ وہ لوگوں کے پاس آئے گا اور انہیں دعوت دے گا۔ چنانچہ وہ اس پر ایمان لے آئیں گے اور اس کے حکم کو مانیں گے۔ تب وہ آسمان کو حکم دے گا تو وہ بارش برسائے گا اور زمین کو حکم دے گا تو وہ درخت اگائے گی۔ شام کو ان کے جانور اس حالت میں لوٹیں گے کہ ان کے کوہان پہلے سے کہیں زیادہ لمبے، اور تھن کامل طور پر بھرے ہوں گے، اور ان کی کوکھیں زیادہ کشادہ ہوں گی۔ پھر وہ کچھ اور لوگوں کے پاس آ ئے گا اور انہیں اپنے ماننے کی دعوت دے گا۔ وہ لوگ اس کی بات کو رد کر دیں گے۔ پس وہ ان سے واپس لوٹے گا تو وہ قحط سالی کا شکار ہو جائیں گے،ان کے اموال میں سے ان کے پاس کچھ نہیں رہ جائے گا۔ اور وہ کسی ویرانے سے گذرے گا تو اسے کہے گا: اپنے خزانے نکال دے۔ تو اس کے خزانے شہد کی سردار مکھیوں کی طرح اس کے پیچھے چل پڑیں گے۔ پھر وہ ایک بھرپور جوان کو بلائے گا اور اس پر تلوار سے وار کرے گا، جو اس کے دو ٹکڑے کر دے گا، جیسے نشانے پر تیر مارا جاتا ہے۔ پھر اسے بلائے گا تو وہ اس حال میں آئے گا کہ اس کا چہرہ چمک رہا ہوگا اور وہ ہنس رہا ہوگا۔ پس دجال اسی حال میں ہوگا کہ اللہ تعالی مسیح ابن مریم ﷺ کو بھیج دے گا۔ چنانچہ وہ (آسمان سے) دمشق کی مشرقی جانب سفید مینار پر زرد رنگ کا جوڑا پہنے ہوئے، اپنی ہتھیلیاں دو فرشتوں کے پروں پر رکھے ہوئے اتریں گے۔ جب وہ اپنا سر جھکائیں گے تو پانی کے قطرے گریں گے اور جب اپنا سر اٹھائیں گے تو موتی کی طرح چاندی (یعنی پانی) کی بوندیں گریں گی۔ جس کافر کو بھی ان کے سانس کی بھاپ پہنچے گی وہ مر جائے گا۔ اور ان کی سانس وہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر جائے گی۔ چنانچہ عیسیٰ عليہ السلام دجال کو تلاش کریں گے یہاں تک کہ اسے باب لد کے پاس پالیں گے اور اسے قتل کر دیں گے۔ پھر عیسی علیہ السلام ایسے لوگوں کے پاس آئيں گے جن کو اللہ نے دجال سے محفوظ رکھا ہوگا۔ پس عیسی علیہ السلام ان کے چہروں پر ہاتھ پھیریں گے اور انہیں جنت میں ملنے والے ان کے درجات بتائیں گے۔ پس وہ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسی ﷺ کی طرف وحی کرے گا کہ میں نے اپنے کچھ بندے ایسے نکالے ہیں جن سے لڑنے کی کسی میں طاقت نہیں۔ لہٰذا تو میرے بندوں کو کوہ طور پر لے جا کر ان کی حفاظت فرما۔ اور اللہ تعالیٰ یاجوج اور ماجوج کو بھیجے گا، وہ ہر بلندی سے دوڑتے ہوئے آئیں گے، ان کا پہلا گروہ بحیره طبريہ سے گزرے گا اور اس کا پورا پانی پی جائے گا۔ اور ان کا آخری گروہ وہاں سے گزرے گا تو وہ کہے گا کہ یہاں کبھی پانی ہوا کرتا تھا۔ عیسیٰ عليہ السلام اور آپ کے ساتھی محصور ہوں گے یہاں تک کہ ان کو بیل کی سری (بھوک کی وجہ سے) تمہارے آج کے سو دینا سے بہتر معلوم ہوگی۔ پس اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کر دے گا جس کی وجہ سے وہ سب دفعتاً ایک جان کی طرح مر جائیں گے۔ پھر اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی زمین پر اتریں گے تو زمین میں ایک بالشت جگہ بھی ایسی نہیں پائیں گے جو ان کی (لاشوں کی) گندگی اور بدبو سے خالی ہو۔ لہٰذا اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ سے دعا مانگیں گے تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کی گردنوں کے مثل بڑے پرندے بھیجے گا جو ان کی لاشوں کو اٹھائیں گے اور جہاں اللہ کو منظور ہوگا، وہاں پھینک دیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ایسی بارش برسائے گا جو ہر گھر اور خیمہ تک پہنچے گی اور ساری زمین کو دھو کر آئینہ کی طرح صاف وشفاف کردے گی۔ پھر زمین سے کہا جائے گا: اپنے پھل اگا اور اپنی برکت واپس لا۔ پس اس وقت ایک گروہ ایک انار سے کھائے گا اور اس کے چھلکے سے سایہ حاصل کرے گا، اور دودھ میں اتنی برکت ڈال دی جائے گی کہ ایک دودھ والی اونٹنی ایک جماعت کو کافی ہو جائے گی، ایک دودھ والی گائے لوگوں کے ایک قبیلہ کو کافی ہوگی اور ایک دودھ والی بکری لوگوں کے ایک گھرانے کو کافی ہوگی۔ پس وہ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا جو ان لوگوں کو ان کی بغلوں کے نیچے سے لگے گی، پس وہ ہر مومن اور مسلمان کی روح قبض کرلے گی۔ (اس کے بعد) صرف بد ترین لوگ باقی رہ جائیں گے جو اس زمین پر گدھوں کی طرح علانیہ لوگوں کے سامنے عورتوں سے جماع کریں گے۔ لہٰذا انہی لوگوں پر قیامت قائم ہوگی۔
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
دجال کا خروج قيامت کی بڑى نشانيوں ميں سے ايک نشانی ہے، جيسا کہ حديث ميں بيان کيا گيا ہے۔ اور يہ ان غيبی أمور ميں سے ہے جس پر رسول اللہ ﷺ کی دی ہوئی خبر کے مطابق ايمان لانا اور اس کی تصديق کرنا واجب ہے۔ اسی لیے دجال کی مکمل صفت بيان کر دی گئی ہے تاکہ مسلمانوں پر اس کا معاملہ واضح رہے۔ لوگوں کی آزمائش کے لئے اللہ رب العالمين نے اسے بہت سے اختيارات اورخوارق سے نوازا ہے، مکہ اور مدينہ کو چھوڑ کر وہ ساری دنيا کا چکر لگائے گا اور اس کا خاتمہ عيسیٰ عليہ السلام کے ہاتھوں ہوگا۔ پھر اس کے بعد قيامت کی ايک اور نشانی کے طور پر ياجوج ماجوج کا ظہور ہوگا، جو دنيا کو فتنہ وفساد سے بھر ديں گے۔ عيسیٰ عليہ السلام اور مومنين اللہ رب العالمين سے گريہ وزاری ميں لگ جائيں گے يہاں تک کہ اللہ رب العالمين انھیں ان سے نجات د ے گا۔ اور ان بڑی بڑی نشانيوں کے بعد قیامت قائم ہوگی، جب کہ اللہ رب العالمين مومنين کی روحوں کوقبض کر لیا ہوگا اور قيامت برے لوگوں پر قائم ہوگی۔