عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما : «أنه كان يسير على جمل فأعيا، فأراد أن يُسَيِّبَهُ. فلحقني النبي صلى الله عليه وسلم فدعا لي، وضربه، فسار سيرا لم يَسِرْ مثله. ثم قال: بِعْنِيهِ بأُوقية. قلتُ: لا. ثم قال: بِعْنِيه. فَبِعْتُهُ بأوقية، واستثنيت حُمْلَانَهُ إلى أهلي. فلما بلغت: أتيته بالجمل. فنقدني ثمنه. ثم رجعت. فأرسل في إثري. فقال: أتَرَانِي مَاكستُكَ لآخذ جملك؟ خذ جملك ودراهمك، فهو لك».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک اونٹ پر سوار ہو کر جا رہے تھے، جو بہت تھک چکا تھا۔ انھوں نے ارادہ کیا کہ اسے چھوڑ دیں۔ نبی ﷺ پیچھے سے میرے ساتھ آن ملے۔ آپ ﷺ نے میرے لیے دعا کی اور اونٹ کو مارا، تو وہ ایسے چلنے لگا کہ اس طرح کبھی نہ چلا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اسے مجھے ایک اوقیہ میں بیچ دو۔ میں نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا: اس کو مجھے فروخت کر دو! تو میں نے اسے آپ ﷺ کو ایک اوقیہ کے عوض فروخت کردیا اور اس پر سوار ہو کر اپنے اہل وعیال تک جانے کا استثنا کرلیا۔ جب میں پہنچا تو آپ ﷺ کے پاس وہ اونٹ لے کر حاضر ہوا، تو آپ ﷺ نے مجھے اس کی قیمت ادا کر دی۔ پھر میں واپس آگیا۔ آپ ﷺ نے میرے پیچھے ایک آدمی کو بھیجا اور فرمایا: ”کیا تم نے یہ سمجھا تھا کہ میں نے تم سے تمھارا اونٹ لینے کے لیے بھاؤ تاؤ کیا تھا؟ اپنا اونٹ بھی لے لو اور درہم بھی۔ یہ سب تیرا ہے“۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما ایک غزوے میں نبی ﷺ کے ساتھ تھے۔ وہ ایک اونٹ پر سوار تھے، جو لاغر و کمزور ہونے کی وجہ سے چلنے اور لشکر والوں کی ہمراہی سے قاصر تھا۔ یہاں تک کہ جابر رضی اللہ عنہ نے اسے چھوڑ دینے کا ارادہ کر لیا کہ وہ جہاں چاہے چلا جائے؛ کیوںکہ اس میں کوئی فائدہ نہیں رہ گیا تھا۔ یہ نبی ﷺ کی اپنے صحابہ اور امت کے ساتھ شفقت کا ایک مظہر تھا کہ آپ ﷺ کمزور و ناتواں اور الگ ہو جانے والے افراد کا خیال کرتے ہوئے لشکر کے پیچھے پیچھے چلا کرتے تھے۔ آپ ﷺ پیچھے سے جابر رضی اللہ عنہ کے ساتھ آن ملے جو کہ اپنے لاغر اونٹ پر سوار تھے۔ آپ ﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی اور ان کے اونٹ کو مارا۔ آپ ﷺ کی اس پرشفقت مار نے لاغر و کمزور اونٹ میں طاقت بھر دی، اسے اس سے مدد ملی اور وہ ایسے چلنے لگا، جیسے وہ کبھی چلا ہی نہیں تھا۔ آپ ﷺ چوں کہ گرم گستر اور لطف و مہربانی کے پیکر تھے، اس لیے جابر رضی اللہ کا دل بہلانے اور انہیں باتوں میں لگانے کا فیصلہ کیا، تاکہ سفر آسانی سے کٹ جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے یہ اونٹ ایک اوقیہ کے عوض بیچ دو۔ جابر رضی اللہ عنہ اللہ کے فضل کو اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے اورانھیں یہ علم تھا کہ اس اونٹ کو نبی ﷺ کے ہاتھوں نہ بیچنے سے ان کے دین میں کوئی کمی نہیں آنی ہے۔ کیوںکہ یہ نبی کی واجب اطاعت میں داخل نہیں۔ دراصل یہ حکم ایسا نہیں تھا کہ اس کی پابندی ضروری ہو۔ اس کے باوجود نبی ﷺ نے ان سے دوبارہ بیچنے کو کہا، تو انہوں نے اسے ایک اوقیہ کے بدلے آپ ﷺ کو بیچ دیا اور شرط لگائی کہ وہ مدینے میں موجود اپنے اہل خانہ تک اس پر سوار ہو کر جائیں گے۔ نبی ﷺ نے ان کی شرط قبول کر لی۔ جب وہ پہنچ گئے تو وہ آپ ﷺ کے پاس اونٹ لے کر آئے اور نبی ﷺ نے انھیں قیمت ادا کر دی۔ جب وہ واپس پلٹے تو آپ ﷺ نے ان کے پیچھے ایک شخص کو بھیجا۔ وہ واپس آئے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ میں نے تمھارے اس اونٹ کو لینے کی لالچ میں تم سے خرید و فروخت کا معاملہ کیا تھا؟۔ اپنا اونٹ لے لو اور دراہم بھی۔ دونوں تمھارے ہیں۔ آپ ﷺ کے فضل و کرم اور آپ ﷺ کے اخلاق اور لطف و مہربانی کو دیکھا جائے تو یہ کوئی انوکھی بات محسوس نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں تو آپ ﷺ سے بہت سے بڑے بڑے واقعات منقول ہیں۔