عن ابن عمر رضي الله عنهما ، قال: كنا نتحدث عن حَجَّةِ الوداع، والنبي صلى الله عليه وسلم بين أظهرنا، ولا ندري ما حَجَّةُ الوداع حتى حمد اللهَ رسولُ الله صلى الله عليه وسلم وأثنى عليه، ثم ذكر المَسِيحَ الدَّجَالَ، فأَطْنَبَ في ذكره، وقال: «ما بعث الله من نبي إلا أَنْذَرَهُ أُمَّتَهُ، أنذره نوح والنبيون من بعده، وإنه إن يخرج فيكم فما خَفِيَ عليكم من شأنه فليس يخفى عليكم، إن ربكم ليس بأَعْوَرَ، وإنه أَعْوَرُ عَيْنِ اليُمْنَى، كأنَّ عينه عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ. ألا إن الله حرم عليكم دماءكم وأموالكم كحُرْمَةِ يومكم هذا، في بلدكم هذا، في شهركم هذا، ألا هل بلغت؟» قالوا: نعم، قال: «اللهم اشهد» ثلاثا «ويلكم - أو ويحكم -، انظروا: لا ترجعوا بعدي كُفَّارًا يضرب بعضكم رِقَابَ بعض».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہم حجۃ الوداع کے بارے میں گفتگو کیا کرتے تھے، جب کہ نبی کریم ﷺ ہمارے درمیان موجود تھے اور ہم نہیں سمجھتے تھے کہ حجۃ الوداع کا مفہوم کیا ہے۔۔ پھر نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور مسیح دجال کا تفصیلی ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جتنے بھی نبیوں کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا، ہر ایک نے دجال سے اپنی امت کو ڈرایا ہے، نوح علیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے دیگر انبیاء نے بھی اپنی امت کو اس سے ڈرایا اور وہ تم ہی میں سے نکلے گا۔ پس یاد رکھنا کہ تم کو اس کے جھوٹے ہونے کی اور کوئی دلیل نہ معلوم ہو تو یہی دلیل کافی ہے کہ تمہارا پروردگار، کانا نہیں ہے اور وہ مردود اپنی دائیں آنکھ سے کانا ہو گا، اس کی آنکھ ایسی معلوم ہو گی جیسے ابھرا ہوا انگور کا دانہ!۔خوب سن لو کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہارے آپس کے خون اور اموال اسی طرح حرام کر دیے ہیں جیسے تمہارے اس دن کی حرمت، تمہارے اس شہر اور اس مہینہ میں مسلَّمْ ہے۔ ہاں بولو! کیا میں نے (اپنا ربانی پیغام تم تک) پہنچا دیا؟“ صحابہ رضی اللہ عنہم بولے کہ آپ نے پہنچا دیا۔ پھر فرمایا: اے اللہ! تو گواہ رہنا، تین مرتبہ آپ ﷺ نے یہ جملہ دہرایا۔ افسوس! (آپ نے ”ويلكم“ فرمایا یا ”ويحكم“، راوی کو شک ہے) دیکھو، میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے (مسلمان) کی گردنیں مارنے لگو۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں ہم کہا کرتے تھے کہ حجۃ الوداع کیا ہے؟ اور ہمیں پتہ نہیں تھا کہ حجۃ الوداع کیا ہے۔ حجۃُ الوداع، اس حج کو کہا جاتا ہے جو نبی ﷺ نے ہجرت کے دسویں برس کیا۔ جس میں آپ ﷺ نے لوگوں کو اپنا وداعی پیغام دیا اور اس میں مسیح دجال کا ذکر کرتے ہوئے اس کے معاملہ کو بہت زیادہ تشویشناک قرار دیا اور اس سے بچاؤ اختیار کرنے کی پورے شد و مد کے ساتھ تلقین فرمائی، پھر آپ ﷺ نے یہ خبر دی کہ سارے ہی انبیاء کرام، اپنی اقوام کو دجال سے ڈرایا کرتے تھےاور انھیں اس کا خوف دلایا کرتے اور اسے بہت خطرناک بتاتے تھے اور یہ کہ یقینا اس کا معاملہ تم سے مخفی نہ رہے گا کیوں کہ تمہارا پروردگار کانا نہیں ہے اور اس کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنی دائیں آنکھ سے کانا ہے جو ایسے معلوم ہوتی ہے کہ نمایاں طور پر ابھرا ہوا انگور کا دانہ ہو۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر آپس میں ایک دوسرے کا خون بہانے اور ناحق اموال ہڑپنے کو، اسی طرح حرام کردیا ہےجس طرح قربانی کے اس دن کی حرمت ہے، شہرِ مکہ کی حرمت ہے اور ماہ ذی الحجہ کی حرمت ہے۔ پھر آپ ﷺ نے لوگوں سے پوچھا:کیا میں نے تمہیں(دین اسلام کی) وہ تمام باتیں پہنچادیں جسے تم تک پہنچانے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی تھی؟ تمام صحابہ کرام نے فرمایا: ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:اے اللہ! تبلیغِ رسالت کے تئیں، امت کی اس گواہی پر تو گواہ رہنا۔ آپ ﷺ نے اس جملہ کو تین بار دہرایا۔ پھر آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ وہ آپ کی وفات کے بعد کافروں کی طرح نہ ہوجائیں کہ ایک دوسرے کی گردن زدنی کرنے لگیں۔