عن أنس رضي الله عنه قال: دخل النبي صلى الله عليه وسلم المسجد فإذا حبل ممدود بين الساريتين، فقال: «ما هذا الحبل؟» قالوا: هذا حبل لزينب، فإذا فَتَرَتْ تَعَلَّقَتْ به. فقال النبي صلى الله عليه وسلم : «حُلُّوهُ، لِيُصَلِّ أحدكم نشاطه فإذا فَتَرَ فليرقد».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ مسجد میں تشریف لے گئے۔ آپ کی نظر ایک رسّی پر پڑی جو دو ستونوں کے درمیان تنی ہوئی تھی۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ رسی کیسی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ اِسے زینب رضی اللہ عنہا نے باندھ رکھا ہے۔ جب وہ (نماز میں کھڑی کھڑی) تھک جاتی ہیں تو اس کا سہارا لے لیتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”نہیں، اسے کھول ڈالو، تم میں ہر شخص کو چاہیے کہ جب تک دل لگے نماز پڑھے، تھک جائے تو سوجائے“۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
نبی ﷺ مسجد میں تشریف لے گئے تو آپ ﷺ کو مسجد کے ستونوں میں سے دو ستونوں کے مابین ایک رسّی تنی ہوئی دکھائی دی۔ آپ ﷺ نے اسے لٹکانے کا سبب دریافت کیا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ ﷺ کو بتایا کہ یہ زینب رضی اللہ عنہا کی رسی ہے جو خوب دیر تک نوافل ادا کرتی ہیں اور جب تکان محسوس کرتی ہیں تو رسی کو تھام لیتی ہیں اور تب بھی نماز پڑھتی رہتی ہیں۔ آپ ﷺ نے رسی کو ہٹانے کا حکم دیا اور عبادت میں میانہ روی اختیار کرنے کی ترغیب دی اور اس میں بہت ہی زیادہ مستغرق ہوجانے سے منع فرمایا تاکہ عبادت پوری بشاشت کے ساتھ ہو۔