عن أَنَس بن مالك رضي الله عنه «أنّ النبي صلى الله عليه وسلم وأبا بكر وعمر رضي الله عنهما : كانوا يَسْتَفْتِحُونَ الصلاة بـ"الحمد لله رب العالمين"».
وفي رواية: « صَلَّيْتُ مع أبي بكر وعمر وعثمان، فلم أسمع أحدا منهم يقرأ "بسم الله الرحمن الرحيم"».
ولمسلم: « صَلَّيْتُ خلف النبي صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر وعثمان فكانوا يَسْتَفْتِحُونَ بـ"الحمد لله رب العالمين"، لا يَذْكُرُونَ "بسم الله الرحمن الرحيم" في أول قراءة ولا في آخرها».
[صحيح] - [متفق عليه.
الرواية الثانية رواها مسلم]
المزيــد ...
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ اور ابوبکر وعمر رضی اللہ عنھما نماز ”الحمد للہ رب العالمين“ سے شروع کرتے تھے۔
اور ایک روایت میں ہے: میں نے ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنھم کے سا تھ نماز پڑھی، تو میں نے ان میں سے کسی کو بھی ”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم“ پڑھتے ہوئے نہیں سنا۔
اور مسلم کی روایت میں ہے: میں نے نبی ﷺ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنھم کے پیچھے نماز پڑھی ہے، وہ نماز ”الحمد للہ رب العالمين“ سے شروع کرتے تھے اور ”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم“ کا ذکر نہ شروع قراءت میں اور نہ آخر میں کرتے تھے۔
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انھوں نے، نبی ﷺ کے ساتھ لمبی صحبت و وابستگی اور خلفاے راشدین کی ہم نشینی کے باوجود، کبھی ان میں سے کسی کو نماز میں ”بسم الله الرحمن الرحيم“ پڑھتے نہیں سنا؛ نہ ہی شروع قراءت میں اور نہ ہی آخر میں۔ وہ نماز ”الحمد لله رب العالمين“ سے شروع کرتے تھے۔ بسم اللہ کو جہراً پڑھنے کی مشروعیت کے حکم میں علماء کا اختلاف ہے۔ اس سلسلے میں کئی ایک اقوال وارد ہیں اور ان میں صحیح قول یہی ہے کہ نمازی نماز کی ہر رکعت میں فاتحہ سے پہلے بسم اللہ سراً پڑھے گا؛ نماز خواہ سری ہو یا جہری۔