عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال: «دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم البيت، وأسامة بن زيد وبلال وعثمان بن طلحة، فأغلقوا عليهم الباب فلما فتحوا كنت أولَ من وَلَجَ. فلقيتُ بلالًا، فسألته: هل صلى فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ قال: نعم ، بين العَمُودَيْنِ اليَمَانِيَيْنِ».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: ”رسول اللہ ﷺ، اسامہ بن زید، بلال اور عثمان بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہم خانۂ کعبہ کے اندر گئے اور اندر سے دروازہ بند کرلیا۔ پھر جب انھوں نے دروازہ کھولا، تو اندر داخل ہونے والا میں پہلا شخص تھا۔ میری ملاقات بلال رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ کیا نبی ﷺ نے خانۂ کعبہ میں نماز پڑھی؟ انھوں نے بتلایا کہ ہاں ! آپ ﷺ نےدونوں یمنی ستونوں کے درمیان نماز پڑھی ہے“۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
جب اللہ تعالی نے ہجرت کے آٹھویں سال مکہ پر فتح عطا فرمائی اور اپنے گھر کو بتوں، مورتیوں اور تصویروں سے پاک صاف کر دیا، تو نبی ﷺ اپنے دونوں خادم، یعنی بلال رضی اللہ عنہ اور اسامہ رضی اللہ عنہ اور خانۂ کعبہ کے دربان عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کعبہ شریف میں داخل ہوئے۔ انھوں نے داخل ہو کر دروازہ بند کر لیا؛ تا کہ نبی ﷺ کے اس میں داخل ہونے پر لوگ یہ دیکھنے کے لیے بھیڑ نہ لگا لیں کہ آپ ﷺ کیسے عبادت کرتے ہیں اور یوں اس جگہ آنے میں آپ ﷺ کا جو مقصد ہے، یعنی اللہ سے مناجات اور اس کی نعمتوں پر اس کی شکر گزاری، اسی سے آپ ﷺ کی توجہ ہٹا دیں۔ کافی دیر اندر رہنے کے بعد انھوں نے دروازہ کھول دیا۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی ﷺ کے آثار اور سنت کی جستجو میں ہمیشہ آگے رہتے تھے۔ اسی وجہ سے جب دروازہ کھولا گیا، تو سب سے پہلےاندر داخل ہونے والے وہی تھے۔ انھوں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: "کیا نبی ﷺ نے خانۂ کعبہ میں نماز پڑھی؟"۔ بلال رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ: "ہاں، آپ ﷺ نے دونوں یمنی ستونوں کے مابین نماز پڑھی"۔ خانۂ کعبہ کے چھے ستون تھے۔ آپ ﷺ نے تین ستونوں کو اپنی پیٹھ پیچھے، دو کو اپنی دائیں طرف اور ایک کو اپنی بائیں جانب رکھا۔ اپنے اور دیوار کے مابین آپ ﷺ نے تین گز کا فاصلہ رکھتے ہوئے دو رکعت نماز ادا فرمائی اور خانۂ کعبہ کے چاروں گوشوں میں دعا مانگی۔