عن زيد بن ثابت رضي الله عنه ، قال: كنَّا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم نُؤَلِّفُ القرآنَ من الرِّقاع، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «طُوبَى للشَّام»، فقلنا: لأيٍّ ذلك يا رسولَ الله؟ قال: «لأنَّ ملائكةَ الرحمن باسطةٌ أجنحتَها عليها».
[صحيح] - [رواه الترمذي وأحمد]
المزيــد ...
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں : ہم لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس رقعوں سے قرآن جمع کیا کرتے تھے۔ ایک بار آپ نے کہا : "شام کے لیے سعادت و خوشخبری ہے"۔ ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول! ایسا کس بنا پر ہے؟ تو فرمایا : "کیوں کہ رحمن کے فرشتے اس کے اوپر اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں"۔
[صحیح] - [اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن جب وہ لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس مختلف رقعوں سے، جن پر قرآن کی آیتیں لکھی ہوئی تھیں، قرآن یک جا کر رہے تھے۔ اس دوران اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "شام والوں کے لیے سعادت و خوشخبری ہے"۔ یعنی شام اور اہل شام کے لیے آرام و سکون اور خوشگوار زندگی ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے ایسا آخر کیوں فرمایا؟ تو جواب دیا: "کیوں کہ رحمن کے فرشتے اس کے اوپر اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں"۔ یعنی فرشتے شام کی سرزمیں اور اس کے باشندوں کے اوپر اپنے پر پھیلا کر انھیں گھیرے میں لیے ہوئے ہیں، اس پر برکت نازل کر رہے ہیں، ہلاکتوں اور اذیتوں سے اس کا بچاو کر رہے ہیں اور کفر اور فتنوں سے اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ یہاں ایک سوال یہ ہے کہ کیا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے یا پھر حدیث کا مطلب یہ ہے کہ یہ باتیں نبوت کے بعد دور اول میں حاصل ہوئی تھیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث مطلق ہے اور اس سے دوام لازم نہيں آتا۔ واللہ اعلم۔