عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «الإيمانُ يمانٍ والحِكمةُ يمانِيَة، وأَجد نَفَسَ الرحمن من قِبَل اليمن، أَلَا إنَّ الكفرَ والفسوقَ وقسوةَ القلب في الفَدَّادين أصحاب المَعِز والوَبَر».
[صحيح] - [رواه أحمد والطبراني]
المزيــد ...

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایمان تو یمن سے ہے حکمت بھی یمنی ہے، اور رحمن کا نفس (غم وبےچینی سے راحت) بھی میں یمن کی طرف سے محسوس کرتا ہوں جب کہ کفر وفسق اور دل کی سختی فدّادین بکری وبال والوں میں ہے“۔
صحیح - اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

شرح

آپ ﷺ کا یہ فرمان کہ: ایمان یمنی اور حکمت و دانائی بھی یمنی ہے، اس سے کیا مراد ہے، اس میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ ایمان کی نسبت مکہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ یمن کا مبدا مکہ سے ہے۔اور مکہ کو مدینہ کے اعتبار سے یمانیہ کہا گیا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ایمان کی نسبت مکہ اور مدینہ دونوں کی طرف ہے اور یہ دونوں شام کے اعتبار سے یمانی ہیں۔ اس کی بنیاد اس استدلال پر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ بات اُس وقت کہی تھی جب آپ تبوک میں تھے۔ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد انصار ہیں، کیوں کہ انصار اصل میں یمنی ہیں۔ اور ایمان کی نسبت ان کی طرف اس لیے کی گئی ہے کیوں کہ اصلاً نبی کریم ﷺ کی مدد انھوں نے کی تھی۔ جب کہ کلام کے ظاہری مفہوم کو بھی اختیار کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے۔ اور اس وقت اہل یمن کی دیگر اہل مشرق پر فضیلت بیان کرنا مراد ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے بغیر کسی سخت محنت کے اسلام قبول کرلیا بہ نسبت اہل مشرق وغیرہ کے۔ اورجو کسی چیز کے ساتھ متصف ہو جائے اور اس کے قیام میں مضبوط ہو تو اس کی کامل حالت کو بطورِ علامت سبب کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس سے دوسروں کے ایما ن کی نفی لازم نہیں آتی۔ پھر اس سے مراد ان میں سے وہ لوگ ہیں جو اس وقت موجود تھے، نہ کہ ہر زمانہ کے ہر یمنی لوگ ہیں۔ کیوں کہ لفظ اس بات کا تقاضا نہیں کرتا۔ اورحکمت سے مراد وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت پر مشتمل ہو۔ ”رحمن کا نفس (یعنی غم وبےچینی سے راحت) بھی میں یمن کی طرف سے محسوس کرتا ہوں"c2">“ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اہل مکہ میں شدید تکلیف اور غم میں تھا، اللہ تعالیٰ نے انصار کے ذریعے اس کو دور کیا۔ یعنی انصار کی طرف سے کشادگی پائی اور وہ یمنی ہیں۔ بہر حال یہ حدیث صفات کے حوالے سے نہیں ہے۔ ”جب کہ کفر وفسق اور دل کی سختی فدّادین بکری وبال والوں میں ہے“ یعنی کفر، فسق، دل کی تنگی اور سختی کثرت سے اونٹ و مال رکھنے والوں میں پائی جاتی ہے جن کی اپنے مویشیوں اور کھیتوں میں آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں اور یہ اہل جفا اور متکبر لوگ ہوتے ہیں۔ البتہ بھیڑ کا ذکر در اصل اس روایت کے مخالف ہے جو کہ صحیحین میں ہے، یہ کہ یہ صفت اونٹ اور گھوڑے والوں کی ہے جبکہ سکینت تو بکریوں والوں میں ہوتی ہے یہ بھیڑ اور بکری دونوں کو شامل ہے۔ صحیحین میں موجود روایت زیادہ صحیح ہے۔

ترجمہ: انگریزی زبان فرانسیسی زبان اسپینی ترکی زبان انڈونیشیائی زبان بوسنیائی زبان روسی زبان بنگالی زبان چینی زبان فارسی زبان تجالوج ہندوستانی ایغور کردی ہاؤسا
ترجمہ دیکھیں
مزید ۔ ۔ ۔