عن جابر رضي الله عنه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل على أُمِّ السَّائِب، أو أُمِّ المُسَيَّب رضي الله عنها فقال: «ما لك يا أمَّ السَّائِب -أو يا أمَّ المُسَيَّب- تُزَفْزِفِينَ؟» قالت: الحُمَّى لا بارك الله فيها! فقال: «لا تَسُبِّي الحُمَّى فإنها تُذهب خَطَايَا بَنِي آدم كما يذهب الكِيْرُ خَبَثَ الحديد».
[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ام سائب یا ام مُسیَّب رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اے ام سائب (یاپھر یہ فرمایا) اے ام مُسیَّب! تمھیں کیا ہوا ہے، کیوں کانپ رہی ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ بخار کی وجہ سے۔ اللہ اس میں برکت نہ دے! اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ”بخار کو برا بھلا مت کہو۔ یہ تو بنی آدم کے گناہوں کو اس طرح صاف کر دیتا ہے، جیسے بھٹی لوہے کے میل کچیل کو صاف کردیتی ہے“۔
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
جابر رضی اللہ عنہ اس حدیث میں بیان کرر ہے ہیں کہ نبی ﷺ ام السائب رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے، جو کانپ رہی تھیں۔ آپ ﷺ نے ان سے اس کا سبب دریافت کیا، تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ بخار کی وجہ سے کانپ رہی ہیں۔ ”الحمی“ اس حرارت کو کہا جاتا ہے، جو جسم کو لاحق ہوتی ہے۔ یہ ایک قسم کا مرض ہے، جس کے کئی انواع ہیں۔ ”لا بارك الله فيها“ ام سائب جس بخار کے مرض میں مبتلا تھیں اس کے خلاف یہ بد دعا تھی۔ آپ ﷺ نے بخار کو بر بھلا کہنے سے منع فرمایا، یعنی نبی ﷺ نے بخار کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا؛ کیوںکہ یہ اللہ تعالی کے افعال میں سے ہے اور ہر وہ شے جو اللہ کے افعال میں سے ہو، اسے برا بھلا کہنا انسان کے لیے جائز نہیں ہے۔ کیوںکہ اسے برا بھلا کہنا دراصل اسے تخلیق کرنے والے کو برا بھلا کہنا ہے۔ اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا: ”زمانے کو برا بھلا مت کہو؛ کیوںکہ اللہ ہی زمانہ ہے“۔ چنانچہ انسان کو جب کوئی مصیبت لاحق ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ صبر کرے اور اللہ سے اجر کا امید وار رہے۔ پھر فرمایا کہ یہ بخار بنی آدم کے گناہوں کو ایسے صاف کر دیتا ہے، جیسے بھٹی لوہے کے میل کچیل کو صاف کردیتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ بخار کا مرض برائیوں کا کفارہ اور رفع درجات کا سبب بنتا ہے۔ جیسے جب لوہے کو آگ پر تپایا جائے تو میل کچیل اور گندگیاں الگ ہوجاتی ہیں اور صاف ستھرا لوہا باقی رہ جاتا ہے۔ ایسے ہی بخار بنی آدم کے صغیرہ گناہوں کو دور کردیتا ہے، یہاں تک کہ وہ ان سے صاف ستھرا ہوجاتا ہے۔