عن عقبة بن عامر رضي الله عنه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى قتلى أحد، فصلى عليهم بعد ثمان سنين كالمُوَدِّعِ للأحياء والأموات، ثم طلع إلى المنبر، فقال: «إني بين أيديكم فَرَط ٌوأنا شهيد عليكم وإن مَوْعِدَكُمُ الحَوْضُ، وإني لأنظر إليه من مقامي هذا، ألَا وإني لست أخشى عليكم أن تُشركوا، ولكن أخشى عليكم الدنيا أن تَنَافَسُوهَا» قال: فكانت آخر نظرة نَظَرْتُها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم .
وفي رواية: «ولكني أخشى عليكم الدنيا أن تنافسوا فيها، وتَقْتَتِلوا فتَهْلِكوا كما هلك من كان قبلكم». قال عقبة: فكان آخر ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر.
وفي رواية قال: «إني فَرَطٌ لكم وأنا شهيد عليكم وإني والله لأنظر إلى حوضي الآن، وإني أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الأرض، أو مَفَاتِيحَ الأرض، وإني والله ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي، ولكن أخاف عليكم أن تَنَافَسُوا فيها».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ شہدائے احد کی جانب گئے اور آٹھ سال بعد ان کے حق میں دعا فرمائی۔ (ایسا لگ رہا تھا،) جیسے آپ ﷺ زندوں اور مردوں، سب سے رخصت ہو رہے ہوں۔ اس کے بعد آپ ﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: ”میں تم سے سبقت کرنے والا ہوں، میں تم پر گواہ رہوں گا اور مجھ سے (قیامت کے دن) تمھاری ملاقات حوض (کوثر) پر ہو گی۔ میں اپنی اس جگہ سے حوض (کوثر) کو دیکھ رہا ہوں۔ ذرا غور سے سنو! مجھے تمھارے بارے میں اس بات کا خطرہ نہیں ہے کہ تم شرک کرو گے۔ ہاں! میں تمھارے بارے میں دنیا سے ڈرتا ہوں کہ تم کہیں دنیا کے لیے آپس میں مقابلہ نہ کرنے لگو“۔ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے لیے رسول اللہ ﷺ کا یہ آخری دیدار تھا، جو مجھ کو نصیب ہوا متفق علیہ۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ وارد ہوئے: ”لیکن میں تمھارے بارے میں دنیا سے ڈرتا ہوں کہ تم کہیں دنیا کے لیے آپس میں مقابلہ نہ کرنے لگو اور ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہوکر باہم قتل کرنے لگ جاؤ۔ پھر تم بھی اسی طرح ہلاک ہو جاؤ، جس طرح تم سے پہلے لوگ ہلاک ہو گئے“۔ عقبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ منبر پر یہی آخری مرتبہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں: ”میں تم سے سبقت کرنے والا ہوں۔ میں تم پر گواہ رہوں گا۔ اللہ کی قسم! اس وقت بھی میں اپنے حوض (کوثر) کو دیکھ رہا ہوں۔ اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا (فرمایا کہ) زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اور اللہ کی قسم! میں تمھارے متعلق اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے، بلکہ مجھے تمھارے متعلق یہ خوف ہے کہ تم دنیا کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگو گے“۔۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
ایک دن رسول اللہ ﷺ غزوۂ احد کے شہدا کی جانب ان کے حق میں دعا کے لیے نکلے۔ یہ واقعہ غزوہ احد کے آٹھ سال بعد کا ہے۔ پھر آپ ﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور لوگوں سے اس انداز میں خطاب فرمایا، جیسے ان سے وداعی و رخصتی خطاب فرما رہے ہوں اور اس بات کی بھی خبر دی کہ آپ ﷺ (دنیا ہی میں اس وقت) اپنے حوض (کوثر) کو دیکھ رہے ہیں اور بہت جلد اس حوض کے پاس ان سے قبل پہنچنے والے ہیں، اور یہ کہ آپ ﷺ ان کے گواہ ہوں گے، اور آپ ﷺ نے اپنی امت کو اس بات سے بھی مطلع فرمایا کہ اس امت کو بہت جلد زمین کے خزانوں کا مالک بنایا جائے گا۔ نیز آپ ﷺ نے اس بات سے بھی آگاہ فرما دیا کہ آپ ﷺ کو اپنی امت پر شرک کا خدشہ نہیں، لیکن کسی اور امر کا خوف لاحق ہے، جس کی طرف لوگ بہت تیزی کے ساتھ لپک کر جانے والے ہیں اور وہ یہ کہ اس امت پر دنیوی مال و متاع کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور وہ اس میں ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی کرتے ہوئے، اس کے حصول کے لیے ایک دوسرے کی جان کے درپے ہو جائیں گے اور اس طرح یہ امت بھی ہلاکت و تباہی کا شکار ہوگی، جس طرح ان سے قبل لوگ ہلاک و برباد ہوئے۔ عقبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے منبر پر رسول اللہ ﷺ کو یہی آخری مرتبہ دیکھا۔