عن عائشة أم المؤمنين رضي الله عنها قالت: استأذنت النبي صلى الله عليه وسلم في الجهاد، فقال: «جهادكن الحج».
[صحيح] - [رواه البخاري]
المزيــد ...
اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے جہاد کی اجازت چاہی، تو آپ ﷺنے فرمایا : "تم عورتوں کا جہاد حج ہے"۔
[صحیح] - [اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے جہاد کی فضیلت کے پیش نظر، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے آپ کی معیت میں جہاد کرنے کی اجازت طلب کی، تو آپ نے واضح انداز میں بتا دیا کہ جہاد اور دشمنوں سے جنگ کرنا عورتوں کے حق میں مشروع نہیں ہے، کیونکہ عام طور سے عورتیں نازک اندام اور نرم دل ہوتی ہیں اور ان کے اندر خطروں کو جھیلنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورتیں میدان جنگ میں زخمیوں کا علاج، پیاسوں کو پانی پلانا اور اس طرح کے دوسرے کام بھی نہیں کر سکتیں، کیونکہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ سات غزوات میں شریک رہی۔ میں ان کے جانے کے بعد قیام گاہ میں رہتی، ان کے لیے کھانا بناتی، زخمیوں کا علاج کرتی اور مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے آگے فرمایا کہ ان کا جہاد حج میں ہوتا ہے۔ حج اور عمرہ کو جہاد سے تشبیہ اس بنا پر دی گئی ہے کہ دونوں میں سفر کرنا پڑتا ہے، وطن سے دور رہنا ہوتا ہے، اہل و عیال سے الگ رہنا پڑتا ہے، سفر کی صعوبتیں جھیلنا پڑتی ہیں، تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے اور مال خرچ کرنا پڑتا ہے۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے حنین کے دن ایک خنجر اٹھایا اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ میں نے اسے اس لیے اٹھا رکھا ہے کہ اگر کسی مشرک نے میرے پاس آنے کی کوشش کی، تو اس کا پیٹ چیر دوں گی۔ یہ حدیث عورت کے جنگ کرنے کی دلیل ہے، اگرچہ اس میں اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ صرف اپنے بچاو کے لیے لڑنا چاہتی تھیں اور ان کا ارادہ دشمن کی صف میں گھس کر دو دو ہاتھ کرنے کا نہیں تھا۔