عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إذا أراد اللهُ بقومٍ عذابًا، أصابَ العذابُ من كان فيهم، ثم بُعِثوا على أعمالهم».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو عذاب دینا چاہتا ہے، تو اُس کا عذاب ہر اس شخص کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے جو اس قوم میں ہوتا ہے اور پھر آخرت میں لوگوں کو ان کے اعمال کے ساتھ اٹھایا جائے گا“۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ان کے بُرے اعمال کی وجہ سے سزا کے طور پر عذاب دینا چاہتا ہے۔ ”أصابَ العذابُ من كان فيهم“ یعنی اس قوم میں موجود ہر شخص پر عذاب بھیجتا ہے اگرچہ کوئی ایسا بھی ہو جو بقیہ قوم کی روش پر نہ چلتا ہو، اللہ تعالیٰ ظاہری اور علی الاعلان گناہ کی وجہ سے تمام لوگوں کو ہلاک کرتا ہے۔ ”ثم بُعِثوا على أعمالهم“ یعنی پھر ہر ایک کو اپنے اعمال کے مطابق اٹھائے گا، اگر اس کے اعمال اچھے ہوں تو اس کا انجام بھی اچھا ہوگا اور اگر اعمال بُرے ہوں تو انجام بھی بُرا ہوگا۔ یہ عذاب نیک لوگوں کی پاکی کا ذریعہ ہوگا اور گناہ گاروں کے لیے عذاب اور زحمت ہوگا۔ اور ان کو اپنے اعمال کے مطابق اٹھانا عدل و انصاف کے تقاضے پر مبنی ہے، اس لیے کہ ان کے نیک اعمال کا بدلہ آخرت میں دیا جائے گا، دنیا میں جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ ان کے گناہوں کے کفارے کے طور پر ہوتی ہے۔ لہٰذا دنیا میں گناہ گاروں پر آنے والا عذاب دوسرے لوگوں پر بھی آتا ہے جو انہیں گناہ کرنے سے باز نہیں رکھتے تھے۔ یہ ان کی مداہنت کا بدلہ ہوگا، پھر قیامت کے دن ان میں سے ہر ایک کو اٹھایا جائے گا اور اپنے عمل کے مطابق انہیں بدلہ دیا جائے گا۔