عن عبد الله بن زيد بن عَاصِم المازِنِي رضي الله عنه قال: «خرج النبي صلى الله عليه وسلم يَسْتَسْقِي، فتَوَجَّه إلى القبلة يدْعو، وحَوَّل رِدَاءه، ثم صلَّى ركعتين، جَهَرَ فيهما بالقِراءة». وفي لفظ «إلى الْمُصَلَّى».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
عبد الله بن زيد بن عاصم مازنی روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ استسقاء کے لیے باہر نکلے تو قبلہ رو ہو کر دعا کرنے لگے اور اپنی چادر کو پھیر کر الٹ دیا۔ پھر آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی جس میں آپ ﷺ نے جہری طور پر قراءت کی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ عید گاہ کی طرف گئے۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
اللہ تعالی بہت سی آزمائشوں میں بندوں کو مبتلا کرتا ہے تاکہ وہ اس سے دعا کریں اور اس کو یاد کریں۔ نبی ﷺ کے دور میں جب ایک دفعہ زمین خشک سالی کا شکار ہوگئی تو آپ ﷺ لوگوں کو لے کر صحراء میں عید گاہ کے طرف نکلے تاکہ اللہ تعالی سے پانی کی دعا کریں اور اس طرح سے زیادہ عاجزی اور حاجت مندی کا اظہار کر سکیں۔ آپ ﷺ نے قبلہ کی طرف رخ کیا جہاں سے دعاؤں کی قبولیت کی امید ہوتی ہے اور اللہ سے دعا کرنے لگے کہ وہ مومنوں کی مدد کرے اور ان پر طاری قحط کو دور کرے۔ اور ان کی حالت کے خشک سالی سے شادابی اور تنگی سے کشادگی میں بدل جانے کے شگون کے طور پر آپ ﷺ نے اپنی چادر مبارک کو ایک جانب سے دوسری جانب الٹ دیا۔ پھر آپ ﷺ نے لوگوں کو نمازِ استسقاء کی دو رکعتیں پڑھائیں اور ان میں جہری قرأت فرمائی کیونکہ یہ مجمع کی صورت میں ادا کی جانے والی نماز ہے۔