عن عبد الله بن عتبة بن مسعود، قال: سمعت عمر بن الخطاب رضي الله عنه يقول: إن ناسا كانوا يُؤْخَذُونَ بالوحي في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وإن الوحي قد انقطع، وإنما نأخذكم الآن بما ظهر لنا من أعمالكم، فمن أظهر لنا خيرًا أَمَّنَّاهُ وقَرَّبْنَاهُ، وليس لنا من سريرته شيء، الله يحاسبه في سريرته، ومن أظهر لنا سوءًا لم نأمنه ولم نصدقه وإن قال: إن سريرته حسنة.
[صحيح] - [رواه البخاري]
المزيــد ...
عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں لوگوں کا وحی کے ذریعہ مواخذہ ہو جاتا تھا۔ لیکن اب وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا اس لیے ہم اب تمہارےظاہری اعمال کے مطابق تمہارا مواخذہ کریں گے۔ جو کوئی ظاہر میں ہمارے سامنے خیر کرے گا، ہم اسے امن دیں گے اور سے اپنے قریب کریں گے اور اس کے باطن سے ہمیں کوئی سروکار نہ ہو گا۔ اس کے باطن کا حساب تو اللہ تعالیٰ کرے گا اور جو کوئی ہمارے سامنے ظاہر میں برائی کرے گا تو ہم بھی اسے امن نہیں دیں گے اور نہ ہم اس کی تصدیق کریں گے اگرچہ وہ یہ کہے کہ اس کا باطن تو اچھا ہے۔
[صحیح] - [اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب وحی کے نزول کا وقت تھا اس وقت اگر کوئی اپنی بد باطنی کو مخفی رکھتا تو اس کا معاملہ وحی نازل ہونے کی وجہ سے نبی ﷺ سے پوشیدہ نہیں رہتا تھا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں منافق لوگ موجود تھے جو اظہار تو اچھائی کا کرتے لیکن ان کے باطن میں شر ہوتا تھا۔ تاہم اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ پر نازل کی جانے والی وحی کے ذریعے سے ان کو رسوا کر دیتا لیکن اب چونکہ وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے چنانچہ اب لوگوں کو منافق کا علم نہیں ہو سکتا کیونکہ نفاق دل میں ہوتا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اب ہم تمہارے اعمال کے ظاہر پر تمہارا مواخذہ کریں گے۔ چنانچہ ظاہری طور پر جس کا عمل اچھا ہو گا اس سے ہم اچھا معاملہ روا رکھیں گے اس لیے ہمارے سامنے اس نے اچھے پہلو کو ظاہر کیا ہے اگرچہ باطنی طور پر وہ برائی کو مخفی رکھے اور جس نے برائی کو ظاہر کیا اس سے ہم اس برائی کےمطابق معاملہ کریں جو اس نے ظاہر کی ہے اور اس کی نیت جاننے کی ذمہ داری ہم پر نہیں ہے۔ نیت کا معاملہ رب العالمین عز و جل کے سپرد ہے جو انسانی نفس کے وسوسوں سے خوب واقف ہے۔