عن عائشة رضي الله عنها قالت: كَانَ كَلاَمُ رَسُولِ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- كَلاَمًا فَصلاً يَفْهَمُهُ كُلُّ مَنْ يَسْمَعُهُ.
[حسن] - [رواه أبو داود واللفظ له، والتُرمذي والنسائي وأحمد]
المزيــد ...
عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی گفتگو کے کلمات الگ الگ ہوتے تھے، جسے ہر سننے والا سمجھ لیتا تھا۔
[حَسَنْ] - [اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی اس حدیث میں بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی گفتگو کے کلمات الگ الگ ہوتے تھے۔ یعنی آپ کی گفتگو جدا جدا ہوتی، بایں طو رکہ حروف و کلمات باہم خلط ملط نہیں ہوتے تھے اور آپ ﷺ کی گفتگو سننے والے کے لیے بالکل واضح اور پیچیدگی و طوالت سے پاک ہوتی تھی۔ آپ ﷺ گفتگو اتنی آہستہ روی سے فرماتے کہ اگر کوئی شمار کرنے والا آپ کی گفتگو کے الفاظ شمار کرنا چاہتا، تو کر سکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺ کو جوامع الکلم عطا کیے گئے تھےاور آپ ﷺ کی گفتگو بہت ہی مختصر ہوتی تھی۔ جوامع الکلم سے مراد یہ ہے کہ تھوڑے الفاظ میں بہت سارے معانی سمو دیے جائیں۔ اس لیے مناسب ہے کہ انسان کی گفتگو اس طرح سے گڈ مڈ نہ ہو کہ وہ سننے والے کو سمجھ ہی میں نہ آئے؛ کیوں کہ گفتگو کا مقصد مخاطب کو بات سمجھانا ہوتا ہے۔ اس لیے گفتگو تفہیم سے جتنی قریب تر ہو گی، اتنا ہی بہتر اور اچھا ہو گا۔ پھر انسان جب یہ طرز عمل اپنائے، یعنی اپنی گفتگو کو جدا جدا، صاف اور واضح رکھے اور جو شخص نہ سمجھ پائے، اس کے لیے اسے تین دفعہ دوہرائے، تو اسے چاہیے کہ وہ اس دوران یہ بات ذہن میں رکھے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کر رہا ہے؛ تا کہ اس کی وجہ سے اسے اجر بھی حاصل ہو جائے اور وہ اپنے مسلمان بھائی کو (اپنی بات) بھی سمجھا دے۔ اسی طرح تمام سنتوں میں اپنے ذہن میں یہی رکھیں کہ آپ ان پر کاربند ہو کر رسول اللہ ﷺ کی پیروی کر رہے ہیں؛ تا کہ اتباع بھی ہو جائے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کو ثواب بھی مل جائے۔