عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قال: «قال النبي صلى الله عليه وسلم لجبريل: «مَا يَمْنَعُك أَنْ تَزُورَنَا أَكْثَر مِمَّا تَزُورَنَا؟» فنزلت: (وَمَا نَتَنَزَّل إِلاَّ بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَينَ ذَلِك ).
[صحيح] - [رواه البخاري]
المزيــد ...
ابن عباس رضي الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے جبرئیل امین علیہ السلام سے فرمایا: ”جتنا تم ہم سے اب ملتے ہو اس سے زیادہ ملنے میں تمھارے لیے کیا رکاوٹ ہے؟“ تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی: (وَمَا نَتَنَزَّل إِلاَّ بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَينَ ذَلِك )[مريم: 64]
ترجمہ: ہم آپ کے رب کے حکم کے بغیر نازل نہیں ہوتے۔ اسی کی ملکیت ہے جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے مابین ہے۔
[صحیح] - [اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
یہ حدیث نبی ﷺ کے جبریل علیہ السلام سے شوقِ ملاقات کو بیان کر رہی ہے۔ کیونکہ وہ اللہ عز و جل کے ہاں سے آتے ہیں۔ جب جبریل علیہ السلام نے آنے میں چالیس دن دیر کر دی تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: اے جبریل! آپ ہم سے ملاقات کے لئے کیوں نہیں آتے؟ یعنی آپ نازل نہ ہوئے یہاں تک کہ میں آپ سے ملاقات کا مشتاق ہو گیا۔ اللہ تعالی نے جبریل علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ آپ ﷺ سے کہیں: (وما نتنزل إلا بأمر ربك) یعنی اللہ سبحانہ نے کہا کہ اے جبرائیل! یہ کہو کہ ہم دیر دیر سے اللہ کے حکم ہی سے آتے ہیں جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہوتا ہے۔ ہمارے آگے جو امور آخرت ہیں اور ہمارے پیچھے جو امور دنیا ہیں، اور آیت کا تکملہ "وما بين ذلك" (اور جو کچھ ان کے درمیان ہے) یعنی اس وقت سے لے کر قیامت آنے تک جو کچھ بھی ہو گا ان سب کا علم اسے ہے اور تیرا رب بھولنے والا نہیں یعنی وحی میں تاخیر کر کے آپ کو چھوڑ دینے والا نہیں ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اچھے لوگوں کو اپنا ہم نشین بنائے، اور وہ ان کی زیارت کرےاور وہ لوگ اس سے ملاقات کرنے آئیں کیونکہ اس میں بہت خیر مضمر ہے۔