عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: «كانت أموال بَنِي النَّضِيرِ: مِمَّا أَفَاءَ الله على رسوله صلى الله عليه وسلم مِمَّا لم يُوجِفْ الْمسلمون عليه بِخَيْلٍ وَلا رِكَابٍ وكانت لرسول الله خالصاً، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يَعْزِلُ نفقة أَهْلِهِ سَنَةً، ثُمَّ يجعل مَا بقي في الْكُرَاعِ، وَالسلاحِ عُدَّةً فِي سبيل الله عز وجل ».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں: ”بنی نضیر کے اموال وہ تھے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو بغیر لڑائی کے دیا تھا۔ مسلمانوں نے اس کے لیے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے تھے۔ ان اموال کا خرچ کرنا خاص طور سے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں تھا۔ چنانچہ آپ ﷺ اس میں سے ازواج مطہرات کا سالانہ خرچ دیتے تھے اور جو باقی بچ جاتا، اسے اللہ عزوجل کے راستے میں جہاد کے لیے گھوڑوں اور سامان جنگ کے حصول میں لگا دیتے تھے“۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
نبی ﷺ جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے، تو آپ کا سامنا مدینے کے گرد ونواح میں آباد یہودی قبائل سے ہوا۔ آپ ﷺ نے ان سے اس شرط پر صلح کرلی کہ وہ اپنے دین پر رہیں گے اور آپ سے جنگ نہیں کریں گے اور نہ ہی آپ کے خلاف کسی دشمن کی مدد کریں گے۔ اتفاقا ایک صحابی نے جن کا نام عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ تھا، بنی عامر کے دو آدمیوں کو یہ سمجھ کر قتل کر دیا کہ وہ مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ نبی ﷺ نے ان دونوں آدمیوں کی دیت دینے کی ذمہ داری اٹھائی اور بنی نضیر کی بستی کی طرف ان سے دیت کی ادائیگی میں مدد طلب کرنے کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ ﷺ ان کی مدد کے انتظار میں ان کے ایک بازار میں تشریف فرما تھے کہ انہوں نے عہد توڑتے ہوئے آپ کو قتل کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا۔ اسی درمیان آسمان سے ان کی غداری کی خبر دینے کے لئے وحی نازل ہوگئ۔ تو آپ ﷺ ان کی بستی سے انہیں اور وہاں موجود صحابہ کو یہ باور کراتے ہوئے نکل گئے کہ آپ قضاے حاجت کے لیے جا رہے ہیں۔ وہاں سے نکل کر آپ ﷺ نے مدینے کا رخ کیا۔ جب آپ نے اپنے صحابہ کے پاس آنے میں دیر کر دی تو آپ کے پیچھے وہ بھی چل پڑے۔ آپ ﷺ نے انہیں یہودیوں کی غداری کی خبر دی۔ قبحھم اللہ۔ اور اس کی پاداش میں آپﷺ نے ان کی بستی کا چھے دن تک محاصرہ کیے رکھا۔ یہاں تک کہ یہ معاہدہ طے پایا کہ وہ شام، حیرہ اور خیبر کی طرف چلے جائیں گے۔ چنانچہ ان کے اموال خوش گوار مال فے تھے، جو مسلمانوں کو بغیر کسی کد و کاوش کے حاصل ہو گئے تھے؛ کیوں کہ انہوں نے اس کے لیے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑاۓ تھے۔ ان سے حاصل شدہ یہ اموال اللہ اور اس کے رسول کا حق تھے۔ انہی میں سے رسول اللہﷺ اپنے گھر والوں کا سال بھر کا راشن رکھتے اور باقی ماندہ کو مسلمانوں کے عمومی مصالح میں لگا دیتے۔ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت جہاد کے لیے سازو سامان یعنی گھوڑوں اور اونٹوں کی ہوا کرتی تھی۔ جب کہ ہر زمانے میں عمومی مصالح کے اپنے خاص مصارف ہوتے ہیں۔