عن عمر بن الخطاب أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «لأُخْرِجَنَّ اليهودَ والنصارى مِن جَزِيرة العرب حتى لا أدَعَ إلا مُسلما».
[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے: "میں ضرور یہودیوں اور نصرانیوں کو جزیرۂ عرب سے نکال دوں گا، یہاں تک کہ مسلمان کے سوا کسی کو نہيں چھوڑوں گا"۔
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بتا رہے ہيں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں اور نصرانیوں کو جزیرۂ عرب سے نکال باہر کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا، تاکہ اس کے اندر ایک سے زیادہ دین کا وجود نہ رہے، پورا جزیرۂ عرب توحید سے آباد رہے اور اس میں شرک کی کوئی نشانی باقی نہ رہے۔ دراصل کافروں کے پڑوس میں اور ان کے ساتھ رہنا بری چيز ہے اور یہ بہت سی برائیوں کا سبب بنتا ہے۔ اس سے اس بات کا ڈر رہتا ہے کہ کہیں سیدھے سادے اور کم علم و فہم والے مسلمان ان کی مشابہت اختیار کرنے نہ لگیں، ان کے عقائد کو بہتر سمجھنے نہ لگیں اور ان کی تقلید کرنے کی جانب راغب نہ ہو جائیں۔ اس لیے مسلمانوں کا الگ رہنا، اپنے ملک اور شہر میں بود و باش اختیار کرنا اور الگ عقیدے کے حامل لوگوں کے بیچ رہنے سے بچنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہودی، نصرانی اور مجوسی وغیرہ تمام کافر ملتوں کو جزیرۂ عرب سے نکالنا ضروری ہے، کیونکہ جزیرۂ عرب، جہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترا کرتی تھی، مسلمانوں کے لیے خاص ہے اور کسی بھی صورت میں اس کے اندر کسی غیر مسلم کا رہنا صحیح نہیں ہے۔